معارف القرآن

معارف ومسائل
فتح مکہ کے درجات متعین کرنے کیلئے حد فاصل قرار دینے کی حکمت:
آیات مذکورہ میں حق تعالیٰ نے صحابہ کرامؓ کے دو طبقے قرار دیئے ہیں، ایک وہ جنہوں نے فتح مکہ سے پہلے مسلمان ہو کر اسلامی خدمات میں حصہ لیا، دوسرے وہ لوگ جنہوں نے فتح مکہ کے بعد یہ کام کیا ہے، پہلے لوگوں کا مقام بہ نسبت دوسرے لوگوں کے حق تعالیٰ کے نزدیک بلند ہونے کا اعلان اس آیت میں فرمایا گیا ہے۔
فتح مکہ میں ان دونوں طبقوں میں حد فاصل قرار دینے کی ایک بڑی حکمت تو یہ ہے کہ فتح مکہ مکرمہ سے پہلے سیاسی حالات اور اسباب ظاہرہ کے اعتبار سے مسلمانوں کی بقا و فنا اور اسلام کے آگے بڑھنے پھیلنے یا بہت سی تحریکات کی طرح مردہ ہو جانے کے احتمالات ظاہر میں نظروں میں یکساں انداز سے گردش کرتے رہتے تھے، دنیا کے ہوشیار لوگ کسی ایسی جماعت یا تحریک میں شرکت نہیں کیا کرتے جس کے شکست کھا جانے یا ختم ہو جانے کا خطرہ سامنے ہو، انجام کا انتظار کرتے رہتے ہیں، جب کامیابی کے امکانات روشن ہو جائیں تو شریک ہو جاتے ہیں اور بعض لوگ اگرچہ اس کو حق و صحیح سمجھتے ہوں لیکن مخالفین کی ایذاؤں کے خوف اور اپنے ضعف کے سبب شرکت کرنے کی ہمت نہیں کرتے، لیکن باعزم و ہمت لوگ جو کسی نظریہ اور عقیدہ کو صحیح اور حق سمجھ کر قبول کرتے ہیں، وہ فتح و شکست اور جماعت کی قلت و کثرت پر نظر کئے بغیر اس کے قبول کی طرف دوڑتے ہیں۔
فتح مکہ سے پہلے جو لوگ ایمان لائے ان کے سامنے مسلمانوں کی قلت اور ضعف اور اس کی وجہ سے مشرکین کی ایذاؤں کا سلسلہ تھا، خصوصاً ابتدائے اسلام کے وقت ایمان کا اظہار کرنا اپنی جان کی بازی لگانے اور اپنے گھر بار کو ہلاکت کے لئے پیش کر دینے کے مترادف تھا ، یہ ظاہر ہے کہ ان حالات میں جنہوں نے اسلام قبول کر کے اپنی جانوں کو خطرے میں ڈالا اور پھر رسول اقدسؐ کی نصرت اور دین کی خدمت میں اپنے جان و مال کو لگایا، ان کی قوت ایمان اور اخلاص عمل کو دوسرے لوگ نہیں پہنچ سکتے۔
رفتہ رفتہ حالات بدلتے گئے مسلمان کو قوت حاصل ہوتی گئی، یہاں تک کہ مکہ مکرمہ فتح ہو کر پورے عرب پر اسلام کی حکومت قائم ہوگئی، اس وقت جیسا کہ قرآن کریم میں مذکور ہے (آیت) ’’لوگ خدا کے دین میں فوج در فوج ہو کر داخل ہوں گے۔‘‘ اس کا ظہور ہوا، کیونکہ بہت سے لوگ اسلام کی حقانیت پر تو یقین رکھتے تھے، مگر اپنے ضعف اور مخالفین اسلام کی قوت وشوکت اور ان کی ایذاؤں کے خوف سے اسلام و ایمان کا اظہار کرتے ہوئے جھجکتے تھے، اب ان کی راہ سے یہ رکاوٹ دور ہوگئی، تو فوج در فوج ہو کر اسلام میں داخل ہوگئے، قرآن کریم کی اس آیت نے ان کا بھی اکرام و احترام کیا ہے اور ان کے لئے بھی مغفرت و رحمت کا وعدہ دیا ہے، لیکن یہ بتلا دیا کہ ان کا درجہ اور مقام ان لوگوں کے برابر نہیں ہوسکتا، جنہوں نے اپنی ہمت و اولو العزمی اور قوت ایمان کے سبب مخالفتوں اور ایذاؤں کے خوف و خطر سے بالاتر ہو کر اسلام کا اعلان کیا اور آڑے وقت میں اسلام کے کام آئے۔
خلاصہ یہ ہے کہ عزم و ہمت اور قوت ایمان کے درجات متعین کرنے کے لئے فتح مکہ سے پہلے اور بعد کے حالات ایک حد فاصل کی حیثیت رکھتے ہیں، اسی لئے آیت مذکورہ میں فرمایا کہ یہ دونوں طبقے برابر نہیں ہو سکتے۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment