سرفروش

عباس ثاقب
میری توقع کے عین مطابق جمیلہ نے گفتگو کا سلسلہ جوڑا۔ اس کے جذبات سے بوجھل لہجے میں شرمندگی کی جھلک تھی ’’مجھے معاف کردیں جمال بھائی۔ میں نے آپ کی بات کا یقین نہیں کیا۔ دراصل…‘‘
میں نے نرمی سے اس بات کاٹی ’’اس میں معذرت کی کوئی بات نہیں میری بہن، بلکہ احتیاط کرنا تو عین سمجھ داری کی بات ہے۔ میں نے کہا ناںکہ تم دونوں کی جگہ میں ہوتا تومیں بھی اتنی آسانی سے کسی کا اعتبار نہ کرتا۔ بہر حال اللہ رب العزت کی مہربانی سے آپ دونوں کی یہاں سے آزاد ہوکر اپنی مرضی کی باعزت زندگی گزارنے کی راہ نکل آئی ہے۔ تیاری کرلیں، ان شااللہ پرسوں شام ہم یہاں سے روانہ ہوجائیں گے۔‘‘
اس مرتبہ رخسانہ سے میری بات پر ردِ عمل ظاہر کیا ’’آپ کی بات پر یقین کرنے کو دل تو چاہ رہا ہے، لیکن ڈر لگتا ہے۔ کہیں دل میں جاگ اٹھنے والی امید محض واہمہ ثابت ہوئی تو اذیت برداشت کرنا مشکل ہوجائے گا۔‘‘
میں نے اسے تسلی دی، جبکہ جمیلہ نے بھی حوصلہ بڑھایا، تب کہیں اس کے چہرے پر سے تشویش کے بادل چھٹے اور اطمینان کی جھلک نمایاں ہوئی، لیکن پھر جمیلہ نے ایک اور سوال کر ڈالا ’’جمال بھائی، آپ ہمیں یہاں سے چھڑا کر کہاں لے جائیں گے؟‘‘
اس پر میں نے جوابی سوال کیا ’’کیا آپ اپنے اصل وطن سے واقف ہیں؟ میرا مطلب ہے یہ تو واضح ہے کہ آپ دونوں نسلاً کشمیری ہیں، کیا آپ کشمیر کے اس حصے سے واقف ہیں جہاں سے آپ کے والدین تعلق رکھتے تھے؟ یہ سوال میں اس لیے پوچھ رہا ہوں کہ اگر اس جگہ کا پتا چل جائے تو میں آپ یہاں سے نجات دلانے کے بعد وہیں پہنچانے کی کوشش کروں گا۔ شاید آپ کے قریبی رشتے دار اب بھی وہاں مقیم ہوں۔‘‘
میری بات سن کر ان دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور چند لمحوں کے توقف کے بعد رخسانہ نے گہری اداسی کے ساتھ کہا ’’ہمیں صرف یہ پتا ہے کہ کشمیر میں ہمارے والدین کا آبائی قصبہ بانیہال تھا۔ لیکن وہ دونوں وہاں سے فرار ہوکر پٹھان کوٹ کے قریب واقع قصبے ملک پور آگئے تھے جہاں انھوں نے شادی کرکے ایک چھوٹا سا گھر بنالیا تھا۔‘‘
رخسانہ شاید آگے بتانے کی تاب نہیں رکھتی تھی، لہٰذا جمیلہ نے بات بڑھائی ’’میری امی بتایا کرتی تھیں کہ وہ شادی سے پہلے ہندو دھرم سے تعلق رکھتی تھیں اور ان کا نام لکشمی تھا۔ لیکن میرے ابو سے محبت کے بندھن میں بندھنے کے بعد انہوں نے چوری چھپے ان ہی کا مذہب اور شاہینہ نام اختیار کرلیا تھا۔ ان دونوں ہی کے گھر والے ان کی شادی کے لیے تیار نہ تھے، بلکہ میری امی کے خاندان والے تو انہیں قتل کرنے کے پر تُل گئے تھے، چنانچہ ان کو وہاں سے چھپ کر فرار ہونا پڑا۔‘‘
اس اثنا میں رخسانہ خود کو سنبھال چکی تھی۔ اس نے کہا ’’میرے ابو کپڑوں پر کشیدہ کاری کے ماہر تھے اور اپنے اس ہنر سے انہیں اچھی کمائی ہوجاتی تھی۔ یکے بعد دیگرے ہم تینوں بہنوں کی پیدائش کے بعد انہوں نے بہت اچھی طرح ہماری پرورش کی۔ شازیہ باجی بہت چھوٹی تھیں کہ انہیں قرآن پڑھنے پر لگا دیا گیا۔ ملک کے بٹوارے کے وقت تک وہ نہ صرف قرآن مکمل کرچکی تھیں، بلکہ دہرا بھی چکی تھیں۔ وہ کڑھائی کے کام میں ابو کا ہاتھ بھی بٹاتی تھیں۔ آمدنی بڑھنے سے ہمارے گھر میں خوشحالی بڑھنے لگی تھی۔ لیکن پھر سب کچھ ختم ہوگیا۔‘‘
اتنا کہہ کر وہ خاموش ہوگئی۔ مجھے لگا کہ وہ اپنے آنسو روکنے کی کوشش کررہی ہے۔ جمیلہ کی بھی کچھ ایسی ہی کیفیت تھی لیکن اس نے نسبتاً جلدی اپنے آپ کو سنبھال لیا ’’مجھے تو برائے نام ہی قیامت کی وہ گھڑیاں یاد ہیں۔ شازیہ باجی بتاتی تھیں کہ ابوجی کڑھائی کا کام دینے اور اپنی اجرت لینے پٹھان کوٹ گئے تھے کہ اس مسلمان تاجر کے کارخانے پر بلوائیوں نے حملہ کردیا، جس کے لیے ابو جی کام کرتے تھے۔ بلوائی جتھا وہاں موجود تمام لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارکرسب کچھ لوٹ کر لے گئے۔‘‘
جوکچھ میں سن رہا تھا، میرے لیے غیرمتوقع نہ ہونے کے باوجود انتہائی دلسوز تھا۔ اس دوران رخسانہ بے آواز روتی رہی تھی۔ جمیلہ نے گفتگو درمیان میں چھوڑ کر اپنی بہن کی دل جوئی کی اور خود اپنی آوازمیں در آنے والی نمی دوپٹے کے دامن میں جذب کرتے ہوئے کہا ’’ملک پور قصبے میں تو حالات پہلے ہی خراب ہورہے تھے، لہٰذا میری ماں نے ایک رات ہم تینوں بہنوں کوساتھ لیا اور مختصر سامان سمیت گرداس پور جانے والی بس میں سوار ہوگئیں۔ انہوں نے اس قصبے کو اس لیے منزل بنایا تھا کہ یہاں مسلمانوں کی بھاری اکثریت تھی اور یہ بات عام تھی کہ گرداس پور کا علاقہ
پاکستان کے حصے میں آئے گا۔‘‘
اتنا کہہ کر وہ کچھ دیر کے لیے خاموش ہوگئی۔ جیسے اپنی ابتردلی کیفیت سنبھالنے کی کوشش کررہی ہو۔ بالآخر اس نے داستان ِ غم آگے بڑھائی ’’لیکن ہمیں گرداس پور پہنچنا نصیب نہ ہوسکا۔ دینا نگر قصبے کے قریب سکھ بلوائیوں کے دستے نے ہماری بس روک کر تلاشی لی اور مسلمان مسافروں کو علیحدہ کرلیا۔ تمام چار مردوں کو تو موقع پر ہی شہید کردیا گیا اور نو خواتین کو، جن میں ہم تینوں کم عمر بہنیں بھی شامل تھیں، ان درندوں نے مال غنیمت کے ساتھ آپس میں بانٹ لیا۔ ‘‘
اس دوران میں رخسانہ نے بھی دل پر جبر کرکے اپنے آپ کو سنبھال لیا تھا۔ اس نے اپنی چھوٹی بہن کو مزید ذہنی اذیت سے بچانے کے لیے یہ داستانِ الم دہرانے کی ذمہ داری خود سنبھال لی ’’ہماری ماں اور تینوں بہنوںکا مالک بننے والا خبیث ہمیں بندوق کی نوک پر بہرام پور قصبے کے قریب واقع ایک بستی میں لے آیا تھا۔ ہماری ماں کو اس ظالم نے زبردستی اپنی گھر والی بنالیا اور ہم تینوں بہنیں اگلے دو سال تک بغیر تنخواہ کی نوکرانیوںکی طرح اس کی خدمت کرتی رہیں۔ پھر اس نے ہم تینوں کو مٹھوسنگھ کے لیے ’’تجارتی مال‘‘ تلاش کرنے والے ایک دلال کے ہاتھ بیچ دیا اور ہم تینوں یہاں پہنچ گئیں۔‘‘ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment