محمد فاروق
مہمانان گرامی میں، سیاہ ریش اور انتہائی فصاحت و بلاغت سے گفتگو کرنے والے، ’’دوسرے نمبر‘‘ کے مہمان، جواں سال، حضرت مولانا کفایت اللہؒ، متہم دارالعلوم، ریاست سوات تھے۔ میں اس ہستی کے بارے میں کیا عرض کروں… ان کے تذکرے پر میرے فکر و نظر کے تمام تخلیقی سوتے خشک ہوجاتے ہیں اور میری خامہ فرسائی جواب دے جاتی ہے۔ یہ دارالعلوم سوات کے طالب علم اور پھر اسی میں ریاست کے وقتوں میں استاد مقرر ہوئے۔ دارالعلوم سوات کے اس وقت کے متہم حضرت مولانا مارتونگ کوہستانیؒ سے میرے دادا جان کے ذاتی تعلقات تھے۔ دادا جان نے، حضرت مارتونگ بابا جیؒ سے، ہمارے گاؤں کی مسجد کے لئے مستقل امام عنایت کرنے کی درخواست کی تھی۔ انہوں نے میرے دادا جان سے اپنی انتہائی شفقت میں اپنے شاگردوں میں سے سب سے قابل ترین اور چہیتے شاگرد، حضرت مولانا کفایت اللہؒ کو یہ ذمہ داری نبھانے کا حکم دیا تھا۔ مولانا کفایت اللہؒ اگرچہ مزید علم کی تحصیل کی خاطر بیرون ملک جانے کا اردہ رکھتے تھے جس کا ذکر خود مجھے مولانا نے کیا تھا… مگر اپنے استاد کے حکم کو ٹال نہ سکے اور ہمارے گاؤں کی چھوٹی سی مسجد اور اس میں بنائے گئے ایک چھوٹے کمرے میں رہائش پذیر ہوکر اس گاؤں کی زینت بن گئے۔ نماز پڑھانے میں ان کی قرآت کا لہجہ ذرا سخت تھا۔ اس لئے ’’تجرباتی بنیادوں‘‘ پر ہفتہ بھر امامت کرنے کے بعد گاؤں کے لوگوں کی چہ مگوئیاں سن کر دل برداشتہ ہوگئے… اور واپس دارالعلوم جانے کا ارادہ کرلیا۔ ایک عصر کی نماز پڑھا کر جب لوگ مسجد سے نکل گئے تو مولانا نے اپنے کپڑوں کی گٹھڑی اٹھا کر نکل جانے کا ارادہ کیا۔ مولانا نے ذاتی طور پر مجھے بتایا کہ میں ابھی مسجد سے نکلا نہیں تھا، گٹھڑی میرے ہاتھ میں تھی کہ تمہارے دادا جان مسجد میں وارد ہوئے جو اس دن کسی وجہ تاخیر سے نماز پڑھنے آئے تھے۔ پوچھا کیوں؟
’’کاکا (میرے دادا جان کو گاؤں میں چھوٹے بڑے کاکا کے نام سے پکارتے تھے)۔ شاید میری امامت گاؤں کے لوگوں کو پسند نہیں آئی… میں واپس جانا چاہتا ہوں‘‘
’’نہیں…! ایسا ہر گز نہیں ہوسکتا۔ جو کوئی آپ کو پسند نہیں کرتا، وہ اپنے لئے دوسرے امام کا بندوبست کرے۔ میں آپ کو لایا ہوں۔ میرے امام آپ ہیں۔ آپ رہیں گے۔ اور اگر کسی کو اعتراض ہو تو وہ میرے سامنے آجائے، میں دیکھوں گا‘‘۔
یہ دو ٹوک بات سن کر مولانا کے لئے اپنے ارادے پر عمل کرنا ممکن نہ رہا۔ یہ ہمارے پورے گاؤں اور خصوصی طور پر اس ناچیز کی بڑی خوش قسمتی تھی کہ اس عصر کی نماز میں میرے دادا جان لیٹ آئے تھے۔ اگر وہ وقت پر نماز ادا کرکے، بقول حضرت مولانا، مسجد سے چلے جاتے تو مولانا نے چپکے سے نکل کر چلے جانا تھا… اور پھر یہ جوہر قابل کبھی ہمارے ہاتھ نہ آتا۔ حضرت کا ذکر ابھی جاری ہے، لیکن جگہ کی تنگ دامانی اجازت نہیں دے رہی۔ اس لئے اس ذکر کو یہاں پر ختم کرنا پڑ رہا ہے۔
ہمارے مہمانوں میں انتہائی نورانی چہرے والے بزرگ جو بعد میں خود ان کی زبانی وہ ایک اور ’’بابا جی‘‘ کے پیچھے اس کے ساتھ گھوڑی پر سوار تھے کون تھے؟ گھوڑی پر سوار ’’بابا جی‘‘ کون تھے؟ جس نے اپنے پیچھے سوار اس نورانی چہرے والے بزرگ کو ایک دست غیبی سے سفر کے دوران حلوے انڈوں پر مشتمل کھانا کھلایا اور پھر ظالم خان کے گھر کو جلانے کا فیصلہ صادر فرمایا؟ اس باباجی کا ایک دوسرا اور اس سے بھی زیادہ ’’اہم مشن‘‘ کیا تھا جس نے علاقے کے مستقبل پر ہر حوالے سے دور رس اثرات چھوڑے؟
آپ ملاحظہ فرما چکے ہیں کہ ہمارے مہمانوں میں دوسرے نمبر پر معزز مہمان حضرت مولانا کفایت اللہ صاحب تھے۔ آپ یہ بھی سن چکے کہ وہ کس طرح ہمارے چھوٹے گاؤں ’’پانڑ‘‘ منگورہ کی جامع مسجد کے امام بنے۔ مجھ پر اس شخصیت کے جو بے پناہ احسانات ہیں، ان کو بیان کرنا میرے بس کا کام نہیں ہے۔ چند مزید سطور میں ان کے اس سلسلہ تعارف کو اس لئے دراز کررہا ہوں کہ علم و دانش کے اس بے کراں سمندر کی کہانی بیان کرنا میری استطاعت میں ہے۔ البتہ اتنا کچھ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ مخلوق خدا کو بتاؤں… کہ آؤ، اس بے نام ہیرے کی چمک دمک، اس کی تابناکیاں اور اس کے انمول، مول کو ملاحظہ کرو، جسے آپ کے آنکھوں یا کانوں نے کبھی تجربہ یا مشاہدہ کیا ہی نہیں ہوگا۔
انہوں نے مختلف دینی مدارس سے علم کی پیاس بجھانے کے بعد سوات دارالعلوم میں جب حضرت مولانا مارتونگؒ کی شاگردی اختیار فرمائی، تو بقول ان کے انہیں احساس ہوا کہ جو کچھ اب تک وہ حاصل کر نہیں کرسکے ہیں۔ یا جس ’’چیز‘‘ کی ابھی تک انہیں تلاش ہے وہ انہیں حضرت مولانا مارتونگؒ ہی کی ذات میں مل گئی ہے۔ مولانا کی طبیعت ابتدا سے منطق، فلسفہ و فکر، کلام اور لغت و ادب کی طرف مائل تھی۔ جب ان کی ملاقات حضرت مارتونگؒ سے ہوگئی جو خود اس میدان کے شہسوار وقت تھے اور انہوں نے بھی اس نوجوان کفایت اللہ کو سنا تو جس طرح کہا جاتا ہے کہ ہیرے کی پہچان یا تو بادشاہ کو ہوتی ہے یا جوہری کو۔ اب قسمت کی خوبی دیکھیے کہ ملک کے دور و دراز علاقہ سوات میں بظاہر اس غیر معروف دارالعلوم میں حضرت مارتونگؒ کی ذات ایسی تھی کہ وہ ’’بادشاہ‘‘ بھی تھے اور ’’جوہری‘‘ بھی۔ چنانچہ یہ ممکن کب تھا کہ وہ کفایت اللہ جیسے نایاب ہیرے کو نہ پہچانتے۔ یا ایک مرتبہ ’’ہاتھ آجانے‘‘ کے بعد جانے دیتے۔ پھر قدرت ہمارے چھوٹے گاؤں ’’پانڑ‘‘ پر جس طرح مہربان ہوئی، میرے دادا جان کی درخواست حضرت مارتونگؒ کے حضور کے کیسے شرف قبولیت پاگئی، یہ نایاب ہیرا ہمارے حصے میں کیسے آیا۔ اور بالا آخر میرے دادا جان کے اس نالائق پوتے پر حضرت کی مہربانیوں کی سوغات کس شان سے ابر رحمت کی طرح برس پڑی؟ اس کی ایک جھلک آپ سن بھی چکے ہیں اور مزید بھی ملاحظہ کرنے والے ہیں۔
میں بہ ہوش و حواس گواہی دے کر کہہ سکتا ہوں کہ ’’کلاسیکل علوم‘‘ میں حضرت کا ثانی، محض سوات و سرحد نہیں، پاکستان و ہندوستان کی سطح پر بھی ملنا شاید مشکل ہے۔ آپ میری اس رائے کو مبالغہ نہ سمجھیں۔ حضرت کو بدقسمتی سے لکھنے لکھانے کا کوئی شوق تھا نہ فرصت تھی جو وجہ شہرت بنتی۔ پھر دوسری طرف تیس پینتیس سال تک اسی دارالعلوم میں ساری مشکل اور بڑی کتابوں کو پڑھانے کی ذمہ داری ان کے کاندھوں پر تھی۔ دارالعلوم سے گھر آتے تو ابھی دم لیا نہیں کہ باہر دروازے پر پانچ دس عدد طلبا موٹی موٹی کتابیں بغل میں لئے کھڑے ہیں۔ مسجد میں بنایا گیا چھوٹا کمرہ مستقل طور چار پانچ طلبا کے قیام اور حضرت سے مستقل درس لینے کا وسیلہ تو تھا ہی، علاقے کی مسجدوں اور مدرسوں کے فارغ التحصیل علما تک بعض کتابوں کو حضرت سے پڑھنے کے لئے مستقل بنیادوں پر آتے تھے۔ پاکستان کے علاوہ افغانستان میں دور دور تک ان کا شہرہ تھا۔ شاید ہی افغانستان کا کوئی ایسا گوشہ ہو جہاں حضرت کے شاگرد موجود نہ ہوں۔ لیکن جیسا کہ عرض کیا گیا، اس جان گسل محنت اور بے پناہ مشقت کی زندگی میں نہ تو حضرت کو لکھنے لکھانے کا موقع ملا نہ سیاست و ابلاغ کی بھول بھلیوں میں گھسنے کا مزاج پایا تھا، کہ جو وجہ شہرت بنتی۔ چنانچہ آج میں نہیں، ان کو قریب سے جاننے والے ہزاروں ’’عینی شاہدین‘‘ اس کی گواہی دینے والے موجود ہیں کہ حضرت علوم دینیہ اور دوسرے ان کلاسیکل علوم میں اس امت کا قابل فخر سرمایہ تھے جو علوم اب عرصہ ہوا ترک کیے جاچکے ہیں اور ان کے سمجھنے سمجھانے اور پڑھنے پڑھانے والے وہ بادہ کش ہم سے رخصت ہوگئے ہیں۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ حضرت کی شہرت نہ ہونے کی وجہ سے اس ’’گواہی‘‘ پر یقین کرنے والے مشکل سے ملیں گے۔ ذاتی طور پر یہ ناچیز حضرت گوہر رحمانؒ کے مدرسے میں کم و بیش تین مہینے ترجمہ قرآن کی خاطر حضرت سے بہت ہی قریب رہا ہے۔ بخاری وہ جس شان سے پڑھاتے تھے، وہ ان کا ہی ملکہ تھا۔ لیکن درس قرآن یا حدیث کیلئے خود اعتراف فرماتے تھے کہ اگر تین چار گھنٹے تیاری نہ کروں تو ’’حق‘‘ ادا نہیں کرسکتا۔ لیکن حضرت کفایت اللہ؟ میں حیران نہیں کبھی کبھی سحرزدہ ہوجاتا تھا، جب دیکھتا تھا کہ اس انسان کو اللہ نے کس شان کا حافظہ عطا فرمایا ہے۔ ایک عظیم الشان خدائی سپر کمپیوٹر تھا، جسے اللہ نے ان کے دماغ میں رکھا تھا۔ موقع کی ہر مناسبت سے ایک ہی نشست میں فارسی و عربی شعرا کے اشعار، بالکل فنگر ٹپس پر سنانا ان کا معمول تھا۔ رومی، فردوسی، انوری، سعدی، حافظ و اقبال کے فارسی کلام کا بہت بڑا حصہ زبانی تھا۔ یہی نہیں لغت و ادب میں جس باریک بینی و نکتہ آفرینی کی حیرت انگیز صلاحیت حضرت کو حاصل تھی، وہ انہی کا حصہ تھا۔ میں اپنی زندگی کا صرف ایک واقعہ بیان کرکے اس لا محدود اور نہ ختم ہونے والی بحث کو تکمیل تک نہ پہنچا سکنے کے اعتراف کے ساتھ ختم کرتا ہوں۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭