تحریک لبیک کے قائم مقام امیر کے لئے تاحال چھاپے جاری

عظمت علی رحمانی
تحریک لبیک کے قائم مقام امیر علامہ شفیق امینی کی گرفتاری کیلئے تاحال چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ ٹی ایل پی قائدین کی گرفتاریوں میں موبائل فون لوکیشن کی مدد بھی لی جارہی ہے۔ ادھر ایم پی او کے تحت گرفتار کئے گئے کارکنا ن و قائدین کو رہا کرنے کا سلسلہ جاری ہے جبکہ بعض کارکنان کو وکلا کی جانب سے رہا کرایا گیا ہے۔ تاہم حکومت کی جانب سے فیصلہ کیا گیا ہے کہ تحریک لبیک پاکستان کے صف اول یا اے کیٹیگری کے اسیروں کو فی الوقت رہا نہیں کیا جائے گا۔ جبکہ بعض اے کیٹیگری کے قائدین کو سی کیٹیگری میں ظاہر کرکے رہا کیا گیا ہے جن میں سندھ کے امیر علامہ غلام غوث بغدادی، کراچی کمیٹی کے صوفی یحیٰ قادری، سید جیلان شاہ اور علامہ بلال غازیانی کو سی کیٹیگری میں ظاہر کرکے 17 کارکنان سمیت رہا کیا جاچکا ہے۔ دوسری جانب پولیس کی جانب سے تحریک لبیک کے بعض اسیر کارکنان سے کراچی کے امیر علامہ رضی حسینی، کراچی کے سوشل میڈیا کے ہیڈ عامر مدنی، خواتین ونگ کے رہنما الطاف پولانی، علما بورڈ کے مفتی مبارک عباسی اور علامہ زمان شاہ جعفری کے بارے میں معلومات جمع کی جارہی ہیں۔ ادھر ایم پی او کے ذریعے دیگر شہروں سے بھی گرفتار کارکنان کو رہا کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ اس حوالے سے گزشتہ روز آزاد کمشیر کے بعض علما اور کارکنان کو رہا کیا گیا ہے، جنہیں عوام کی جانب سے ریلی کی صورت میں گھروں تک لایا گیا تھا۔
تحریک لبیک پاکستان کی تقریباً تمام مرکزی قیادت گرفتار ہے، جس کی وجہ سے عارضی طور پر قائم امیر خیبر پختون کے امیر علامہ ڈاکٹر شفیق امینی کو بنایا گیا ہے۔ علامہ شفیق امینی کو پولیس کی جانب سے گرفتار کرنے کیلئے چھاپے مارے جاتے رہے ہیں، تاہم اس حوالے سے ایک روز قبل اس وقت دلچسپ صورتحال پیدا ہوئی جب علامہ شفیق امینی نے چارسدہ میں اپنی مسجد میں جمعہ پڑھانے کے بعد ریلی نکانے کا اعلان کیا تھا۔ اعلان کے بعد پولیس کی بھاری نفری مسجد کے باہر جمع ہو گئی جس کے بعد علامہ شفیق امینی کے ساتھ پولیس افسران کے مذاکرات ہوئے کہ ریلی کو مسجد کے قریبی احاطے تک محدود رکھا جائے گا ، جس کے بعد ریلی نکالی گئی۔ ادھر پولیس کی جانب سے علامہ شفیق امینی کو ریلی کے بعد گرفتار کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی کہ نماز عصر کا وقت ہوا اور نماز کی ادائیگی کے بعد علامہ شفیق امینی عام لوگوں کے درمیان سے نکل کو محفوظ مقام پر پہنچ کر ویڈیو بیان جاری کردیا۔ علامہ شفیق امینی کا ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’’کارکنان کا حوصلہ بڑھانے کیلئے گرفتاری نہیں دے رہا۔ کیونکہ ابھی کوئی بھی مرکزی قائد باہر نہیں ہے۔ اس لئے کارکنان کو مشتعل نہیں ہونے دینا ہے۔ ہم نے جمعہ کے بیان میں کہا کہ ہم ناموس شان رسالت اور عقیدہ ختمِ نبوت کے تحفظ کیلئے کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔ ہم نے بزرگ عالم دین مفتی محمد یوسف سلطانی صاحب کی جیل میں شہادت پر تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا ہے۔‘‘ علامہ شفیق امینی کا مزید کہنا تھا کہ ’’حکومت کو یاد رکھنا چاہئے کہ قائدین اور کارکنان کی رہائی کیلئے ہم حکومت کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلائیں گے۔ بلکہ تمام قائدین اور کارکنان کی رہائی کیلئے قانونی اقدامات کئے جائیں گے۔‘‘
معلوم رہے کہ تحریک انصاف حکومت کے مذکورہ اقدامات کو بعض دینی حلقوں میں سخت تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے جس کی وجہ سے دینی جماعتوں سے وابستہ بعض تاجروں کی جانب سے موجودہ حکومت کے خلاف عدالت جانے کا فیصلہ کیا گیا ہے، جس میں وفاقی وزیر فیصل واوڈا کے لندن میں واقع گھر کی معلومات کو خفیہ رکھنے، صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی کا اپنے گھر کی قیمت کم ظاہر کرنے سمیت دیگر پہلوئوں کو مدعا بنایا جائے گا۔ اس حوالے سے 5 تاجروں کے گروپ نے دو روز قبل اجلاس بھی منعقد کیا۔
’’امت‘‘ کو تحریک لبیک کے رہنما قاضی عباس نے رابطے کرنے پر بتایا کہ ’’حکمرانوں کا غیر جمہوری رویہ ملک کو انتشار کی طرف دھکیل رہا ہے۔ جب کہ اسیران تحریک کا جذبہ قابل دید ہے۔ حکومت ہزاروں گرفتاریوں کے باوجود بھی تحریک کو دبانے میں ناکام رہی ہے۔‘‘ ٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment