نجم الحسن عارف
وفاقی وزیر پیٹرولیم نے کراچی پہنچ کر سات روز سے جاری گیس بحران کو ختم کرنے کا فوری اعلان کر دیا۔ جبکہ وزیراعظم عمران خان کی قائم کردہ انکوائری کمیٹی کی رپورٹ بھی ابھی مکمل نہ ہو سکی تھی۔ ’’امت‘‘ کے ذرائع کے مطابق وفاقی وزیر کے اعلان کے باوجود گیس کا بحران اگلے کئی ماہ تک باقی رہنے کا خدشہ ہے۔ کیونکہ حکومت کے ساتھ اوگرا اور ایس این جی پی ایل کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ارکان کی بڑی تعداد ایل این جی کی درآمد کے حوالے سے ایک صفحے پر نہیں ہے۔ ذرائع کے مطابق حکومت کی طرف سے حالیہ ہفتوں میں پاور کمپنیوں کو دوبارہ ایل این جی کے بجائے فرنس آئل پر لانے کے اشاروں کے بعد سرکاری اتھارٹیز کے اندر ان بااثر حکام نے ملی بھگت سے بحران کی صورت حال پیدا کی۔ جس کے بعد حکومت کی سطح پر یہ احساس پیدا ہوا کہ فوری طور پر ایل این جی کے بارے میں پالیسی کو تبدیل کرنا خطرناک ہو گا۔ ان ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ایل این جی کی جتنی مقدار پاکستان میں آرہی ہے، ایک مخصوص مافیا اس سے دس گنا زیادہ فروخت کررہا ہے اور مقامی طور پر نکالی جانے والی گیس کو ایل این جی قرار دے کر مہنگی فروخت کررہے ہیں۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ یہ سلسلہ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے دور وزارت سے چل رہا ہے اور اوگرا کی موجودہ سربراہ عظمیٰ عادل سمیت سوئی ناردرن اور سوئی سدرن کے ایم ڈی حضرات بھی خوب آگاہ ہیں۔ ذرائع کے بقول وزیراعظم عمران خان کی طرف سے اوگرا سربراہ کی زیر قیادت بنائی گئی انکوائری کمیٹی سے مسئلے کا اصل سبب سامنے نہیں آسکے گا۔ کیونکہ بطور ریگولیٹری ادارے کے اوگرا نے کبھی گیس کے بحران کی پہلے نشاندہی کی، نہ حکومت کو خبر کی اور نہ ہی متبادل بندوبست کیلئے کوئی تجاویز پیش کیں۔
’’امت‘‘ کے ذرائع کے مطابق اگر اس بحران کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کا ارادہ ہو تو حکومت کو عظمیٰ عادل کی سربراہی میں انکوائری کے بجائے ان سے بھی انکوائری کرنا پڑے گی۔ نیز سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے علاوہ موجودہ وزیر خزانہ اسد عمر سے بھی ایل این جی کی امپورٹ اور کھپت کے بارے میں پوچھنا پڑے گا۔ کیونکہ جب ایل این جی کی امپورٹ کا معاہدہ ہوا تھا تو اسد عمر ایک بڑے اسٹیک ہولڈر ادارے اینگرو سے منسلک تھے۔ ’’امت‘‘ کے ذرائع کے مطابق اس معاملے میں مرزا محمود نامی ڈائریکٹر سے بھی انکوائری کی ضرورت ہے کہ ایل این جی کے معاملات میں مبینہ طور پر ناجائز کمائی میں وہ بھی ملوث ہیں۔ لیکن وزیراعظم عمران خان کو کسی بھی متعلقہ اتھارٹی نے ابھی تک اس بارے میں بتایا ہی نہیں ہے۔ دوسری جانب ’’امت‘‘ کو معلوم ہوا ہے کہ سات دن سے جاری بحران کے غیر حقیقی ہونے کی ایک یہ دلیل بھی ہے کہ وفاقی وزیر پیٹرولیم نے کراچی کے پہلے دورے کے دوران ہی محض چند گھنٹوں کی میٹنگز سے مسئلے کو حل کرنے کا دعویٰ کر دیا ہے۔ جبکہ اوگرا سربراہ عظمیٰ عادل کی سربراہی میں قائم کمیٹی نے رات گئے تک اپنی انکوائری رپورٹ اس کے باوجود مکمل نہیں کی تھی کہ اس کے ارکان کی تمام تر ڈیٹا تک رسائی موجود تھی اور اس انکوائری کمیٹی کیلئے بننے والے ٹی او آرز میں بنیادی طور پر صرف تین پہلوئوں کا جائزہ لینا تھا۔ اولاً یہ کہ کسی کمپنی نے کوئی غلط بیانی تو نہیں کی۔ ثانیاً کسی فورم یا کمپنی نے غلط اعداد و شمار تو پیش نہیں کئے۔ ثالثاً کسی سطح پر بدانتظامی تو نہیں ہوئی۔ جس کی وجہ سے اتنے بڑے بحران کا پیشگی اندازہ ہی نہ ہو سکا۔ ’’امت‘‘ نے اس سلسلے میں اوگرا کے ترجمان سے رابطہ کرکے استفسار کیا کہ کیا اوگرا کو بطور ریگولیٹری ادارے کے، پہلے سے اندازہ نہیں تھا کہ گیس کا اتنا طویل بحران آرہا ہے۔ اس پر ترجمان نے کہا کہ ہمارا ادارہ متعلقہ کمپنیوں کو لائسنس دیتا ہے اور قیمتوں کا تعین کرتا ہے۔ اس سے زیادہ ہمارے ادارے کا کیا کردار ہے، اسے دیکھنا پڑے گا۔ جب ترجمان کو میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی ’’پمرا‘‘ کا حوالہ دے کر بتایا گیا کہ جس طرح پمرا لائسنس بھی جاری کرتا ہے اور ٹی وی چینلز کے آپریشنز پر بھی نظر رکھتا ہے۔ اوگرا متعلقہ کمپنیوں کے آپریشنز سے آگاہ کیوں نہیں۔ نیز یہ کہ جس بحران کا سامنا پبلک کو ہونا ہے، اسے چیک میں رکھنے اور روکنے کی ذمہ داری اوگرا پر کیوں نہیں؟۔ تو ترجمان کا جواب تھا کہ اوگرا آپریشنز کو ریگولیٹ نہیں کرتا۔ ’’امت‘‘ نے اسی سے متعلق معاملات پر اوگرا کی سربراہ عظمیٰ عادل سے بات کی کہ آیا وہ اوگرا کی اس پس منظر میں کارکردگی کو بھی رپورٹ کا حصہ بنائیں گی؟۔ تو ان کا کہنا تھا کہ ’’مجھے پتہ نہیں۔ میں ایسا کچھ دیکھوں گی تو پتہ چلے گا‘‘۔ اس سوال پر کہ وفاقی وزیر پیٹرولیم کراچی پہنچ کر جس مسئلہ کو حل کرنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ اس مسئلے کو پکڑنے کیلئے آپ رپورٹ بنا رہی ہیں، یہ رپورٹ مکمل ہو چکی ہے کیا؟۔ انہوں نے کہا ’’نہیں ابھی ہم رپورٹ تیار کررہے ہیں۔ یہ آج رات تک وزیراعظم کو بھیج دی جائے گی۔ جہاں تک وزیر پیٹرولیم کے مسئلہ حل کر دینے کا تعلق ہے۔ میں اس پر کمنٹ نہیں کر سکتی۔‘‘
واضح رہے کہ سی این جی اسٹیشنوں سے متعلق ذرائع کا کہنا ہے کہ صرف صوبہ سندھ میں 650 سی این جی اسٹیشن سات دن تک اس بحران کی وجہ سے متاثر ہوئے۔ اگر ایک سی این جی اسٹیشن کی یومیہ فروخت 2 لاکھ روپے بھی فرض کی جائے تو یہ تقریباً ایک ارب روپے کا نقصان بنتا ہے۔ جبکہ سی این جی اسٹیشنوں کی یومیہ آمدنی دو لاکھ سے کہیں زیادہ بھی ہے۔ ’’امت‘‘ کے ذرائع نے کہا کہ ’’ہمیں بتایا گیا ہے کہ 40 ایم ایم سی ایف ڈی گیس کی فراہمی 8 بجے سے شروع کر دی گئی ہے اور اگلے چوبیس گھنٹوں میں 10 ایم ایم سی ایف ڈی مزید دستیاب ہو جائے گی۔ جس سے تمام 650 سی این جی اسٹیشن صارفین کو گیس سرو کرسکیں گے اور رکی ہوئی ہزاروں گاڑیوں کا پہیہ چلنے لگے گا۔ اس سلسلے میں وفاقی وزیر نے پی ایس او کو خصوصی ہدایات کی ہیں، جس کی وجہ سے یہ مسئلہ حل ہوا ہے۔ لیکن اسے مستقل بنیادوں پر حل نہیں سمجھا جا سکتا۔ ابھی کم از کم تین ماہ تک یہ مسئلہ کسی نہ کسی صورت چلتا رہے گا۔ خصوصاً صنعتوں کے استعمال کیلئے گیس کا مسئلہ رہے گا۔ ’’امت‘‘ کے ذرائع کے مطابق ایل این جی کے بارے میں حکومت کو نہ صرف ایک واضح پالیسی کے ساتھ آگے آنا ہو گا۔ بلکہ اس کے استعمال اور فروخت کے نظام پر بھی انکوائری ضروری ہے۔ کیونکہ اس کی درآمد کم ہورہی ہے اور فروخت سے روپیہ زیادہ کمایا جارہا ہے۔ جو لازمی طور پر مقامی طور پر پیدا ہونے والی گیس کی کھپت بڑھا رہا ہے۔ اس سے فائدہ صرف بڑی کمپنیوں کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں چھپا مافیا اور سرکاری اداروں میں محفوظ بیٹھے اعلیٰ حکام اٹھا رہے ہیں۔
٭٭٭٭٭