قسط نمبر 22
امام زہریؒ:
امام ابو بکر محمد بن مسلم بن شہاب زہریؒ کا جو درجہ ہے وہ محتاج بیان نہیں۔ وہ جلیل القدر تابعی اور عظیم الشان محدث و فقیہ تھے۔ قوت یادداشت بلا کی پائی تھی۔ جس کا اندازہ اس بات سے لگالیں کہ آپؒ نے صرف اسّی (80) دنوں میں قرآن مجید حفظ کر لیا تھا۔
قبیلہ قریش سے تعلق تھا۔ ابن شہاب سے بھی مشہور ہیں۔ راجح قول کے مطابق سنہ 51ھ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد حضرت ابن زبیرؓ کے فوجی تھے، امویوں کے خلاف لڑتے رہے، باپ کا جب انتقال ہوا تو آپ یتیم ہی نہیں، تربیت کرنے والوں کی تربیت سے بھی محروم ہوگئے، لیکن آپ کے اندر کا جوہر، علم کی طرف راغب کررہا تھا، چنانچہ پہلے حفظ قرآن مکمل کیا۔ پھر ابن تغلبؒ سے علم الانساب حاصل کیا، پھرحلال و حرام اور روایت حدیث کی طرف متوجہ ہوئے اور اس وقت کے موجود تمام صحابہؓ سے حدیثیں سنیں، جن میں دس صحابہ، حضرت انسؓ، حضرت ابن عمرؓ، حضرت جابرؓ وغیرہ کے اسماء کی تصریح ملتی ہے، پھر بڑے تابعین سے علم حاصل کیا، جن میں سعید بن المسیبؒ کا نام خاص طور پر قابلِ ذکر ہے، جن کی صحبت میں مکمل آٹھ سال رہ کر، کندن بن گئے۔ (تہذیب الکمال: 6/511)
جب حضرت ابن زبیرؓ شہید کردیئے گئے تو اس کے بعد سے آپؒ کے تعلقات خلفاء بنوامیہ سے استوار ہوئے۔ چنانچہ مروان، عبد الملک، ولید، سلیمان، عمر بن عبد العزیز، یزید ثانی اور ہشام تک سے مراسم اچھے رہے۔ 72 بہاریں دیکھنے اور دین کی عظیم ترین خدمت انجام دینے کے بعد 124ھ میں انتقال فرما گئے۔ آپ کی وصیت کے مطابق شاہراہ عام پر دفن کیا گیا، تاکہ ہرجانے آنے والا، دعائے مغفرت کرتا رہے۔
حضرت ابراہیم بن سعدؒ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے پوچھا کہ آخر کیا وجوہات ہیں کہ زہریؒ آپ سبھی پر فائق ہوگئے؟ کہنے لگے کہ سنو: ’’وہ علمی مجلسوں میں بالکل سامنے بیٹھتے، مجلس میں ہر جوان اور ادھیڑ عمر سے سوالات کرتے، پھر انصار کی مجلسوں میں آتے، وہاں بھی جس شخص سے ملاقات ہوتی، پوچھ لیا کرتے تھے، یہاں تک کہ خواتین سے بھی پوچھتے تھے۔‘‘ (تہذیب الکمال:6/511)
امام زہریؒ عبید اللہ بن عتبہ بن عبد اللہ بن مسعودؓ سے حدیثیں پڑھتے، آپ کے دروازے سے چمٹے رہتے، آپ کے لیے پانی لاتے، باندیاں تو آپ کو عبداللہ کا غلام سمجھتی تھیں اور جوں ہی موقع ملتا کتاب کھول کر بیٹھ جاتے، انہماک کا یہ حال ہوتا کہ عبداللہ کی اہلیہ صاحبہ کہتیں کہ تین سوکنوں سے زیادہ دشوار یہ کتابیں ہیں، پھر گھر لوٹتے تو باندی کو جگاتے اور حدیثوں کو سناتے اور کہتے جاتے کہ مجھے معلوم ہے تمہیں کچھ فائدہ نہیں ہوگا، لیکن چونکہ میں نے ابھی یہ حدیث سنی ہے، اس لیے مذاکرہ کے طور پر سنا رہا ہوں۔ (السنۃ ومکانتھا فی التشریع الاسلامی: 208، 209)
آپؒ اپنے دور کے دریتیم اور قوتِ حافظہ کی دولت سے مالامال تھے، ابن عساکر نے ایک حیرت انگیز واقعہ نقل کیا ہے کہ عبدالملک نے اہل مدینہ کو عتاب والا ایک خط لکھا، جو دوصحیفے کے برابر تھا، وہ خط منبر کے پاس پڑھا گیا اور لوگ اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے تو سعید بن المیسبؒ نے اپنے حلقۂ درس میں طلبہ سے خواہش کی کہ اس خط میں کیا تھا، بتائیں۔ سب نے اپنی اپنی یادداشت کے مطابق کچھ کچھ حصہ سنایا۔
ابن شہاب زہریؒ نے کہا: ’’اے ابو محمد! کیا آپ اس خط کے پورے اجزاء سننا چاہتے ہیں؟‘‘ انہوں نے کہا ہاں! تو ابن شہاب نے پورا خط اس طرح سے ذکر کیا کہ ایسا محسوس
ہوتا تھا کہ خط ان کے ہاتھ میں ہے۔
ہشام بن عبد الملک نے ایک موقع پر آپ کے حافظے کا امتحان لینا چاہا۔ چنانچہ آپ سے درخواست کی کہ ان کے کسی صاحبزادے کو حدیثیں املاء کروائیں، لہٰذا ابن شہاب نے ایک مجلس میں چار سو حدیثیں املاء کروائیں، ایک ماہ کے بعد ہشام نے کہا کہ وہ صحیفہ ضائع ہوگیا، اس لیے دوبارہ حدیثیں لکھوادیں، چنانچہ ابن شہاب نے دوبارہ چارسو حدیثیں لکھوائیں، جب مقابلہ کیا گیا توایک لفظ کا بھی فرق نہ تھا۔ (تہذیب الکمال:6/512)
(جاری ہے