ایک ہاتھ والے شیطان کی داستان

چوتھا حصہ
ابن ساباط ابھی سوچ رہا تھا کہ دروازہ کھلا اور اجنبی ایک لکڑی کا بڑا پیالہ ہاتھ میں لیے نمودار ہوا۔
’’یہ لو! میں تمہارے لئے دودھ لے آیا ہوں، اسے پی لو، یہ بھوک اور پیاس دونوں کے لیے مفید ہوگا۔‘‘
اس نے کہا اور پیالہ ابن ساباط کو پکڑا دیا۔ ابن ساباط واقعی بھوکا پیاسا تھا، اس نے بلا تامل پیالہ منہ سے لگا لیا اور ایک ہی مرتبہ میں ختم کر دیا۔ اب اسے معاملے کی فکر ہوئی۔ اتنی دیر کے وقفے نے اس کی طبیعت بحال کر دی تھی۔
دیکھو اگرچہ میں تم سے پہلے پہنچ چکا تھا اور ہاتھ لگا چکا تھا، اس لئے ہم لوگوں کے قاعدے کے موجب تمہارا کوئی حق نہیں، لیکن تمہاری ہوشیاری اور مستعدی دیکھ لینے کے بعد مجھے کوئی تامل نہیں کہ تمہیں بھی اس مال میں شریک کر لوں، اگر تم پسند کرو گے تو میں ہمیشہ کے لئے تم سے معاملہ کر لوں گا، لیکن دیکھو! یہ میں کہہ دیتا ہوں کہ آج جو کچھ یہاں سے لے جائیں گے، اس میں تم برابر کا حصہ نہیں پا سکتے، کیونکہ دراصل آج کا کام میرا ہی کام تھا۔‘‘
اس نے صاف آواز میں کہا، اس کی آواز میں تاثر نہیں تھا، تحکم تھا۔ اجنبی مسکرا دیا، اس نے ابن ساباط پر ایک ایسی نظر ڈالی جو اگرچہ شفقت و مہر سے خالی نہ تھی، لیکن اس کے علاوہ بھی اس میں کوئی چیز تھی، جسے ابن ساباط نہ سمجھ سکا۔ اس نے خیال کیا شاید یہ شخص اس طرح تقسیم پر قانع نہیں ہے، اچانک اس کی آنکھوں میں اس کی خوفناک درندگی چمک اٹھی، وہ غصہ سے مضطرب ہو کر کھڑا ہوگیا۔
’’بے وقوف! چپ کیوں ہے، یہ نہ سمجھنا کہ دودھ کا پیالہ پلا کر اور چکنی چپڑی باتیں کر کے تم مجھے احمق بنا لو گے۔ تم نہیں جانتے میں کون ہوں؟ مجھے کوئی احمق نہیں بنا سکتا، میں ساری دنیا کو احمق بنا چکا ہوں۔ بولو اس پر راضی ہو یا نہیں ؟ اگر نہیں ہو تو۔‘‘
لیکن ابھی اس کی بات پوری نہیں ہوئی تھی کہ اجنبی کے لب متحرک ہوئے، اب بھی اس کے لبوں سے مسکراہٹ نہیں ہٹی تھی۔
’’میرے عزیز دوست! کیوں بلاوجہ اپنی طبیعت آرزدہ کرتے ہو؟ آؤ یہ کام جلد نمٹا لیں، جو ہمارے سامنے ہے۔ میں نے دو گٹھڑیاں باندھ لی ہیں۔ ایک چھوٹی ہے ایک بڑی، تمہارا ایک ہاتھ ہے، اس لئے تم زیادہ بوجھ نہیں سنبھال سکتے، لیکن میں دونوں ہاتھوں سے سنبھال لوں گا۔ چھوٹی گٹھڑی تم اٹھا لو، بڑی میں اٹھا لیتا ہوں۔ باقی رہا میرا حصہ، جس کے خیال سے تمہیں اتنی آزردگی ہوئی ہے، میں بھی نہیں چاہتا کہ اس وقت اس کا فیصلہ کروں۔ تم نے کہا ہے، تم ہمیشہ کیلئے مجھ سے فیصلہ لے سکتے ہو، مجھے بھی ایسا ہی معاملہ پسند ہے۔ میں چاہتا ہوں، تم ہمیشہ کے لیے مجھ سے معاملہ کر لو۔‘‘
’’ہاں اگر یہ بات ہے تو پھر سب ٹھیک ہے۔ تمہیں ابھی معلوم نہیں میں کون ہوں؟ پورے ملک میں تمہیں مجھ سے بہتر کوئی سردار نہیںمل سکتا۔‘‘ اس نے بڑی گٹھڑی اٹھانے میں اجنبی کو مدد دیتے ہوئے کہا۔
گٹھڑی اس قدر بھاری تھی کہ ابن ساباط اپنی حیرانی نہ چھپا سکا۔ وہ اگرچہ نئے نئے رفیق کی زیادہ جرأت افزائی کرنا پسند نہیں کرتا تھا، پھر بھی اس کی زبان سے بے اختیار نکل گیا: ’’دوست! تم دیکھنے میں تو بڑے دبلے پتلے ہو، لیکن بوجھ اٹھانے میں بڑے مضبوط نکلے۔‘‘ ساتھ ہی اس نے اپنے دل میں کہا: ’’یہ جتنا مضبوط ہے، اتنا عقل مند نہیں ہے، ورنہ اپنے حصے سے دست بردار نہ ہو جاتا، اگر آج یہ احمق نہ مل جاتا تو مجھے سارا مال چھوڑ کر صرف ایک دو تھان پر قناعت کر لینا پڑتی۔‘‘
اب ابن ساباط نے اپنے گٹھڑی اٹھائی، جو بہت ہلکی تھی اور دونوں باہر نکلے۔ اجنبی کی پیٹھ جس میں پہلے سے خم موجود تھا، اب گٹھڑی کے بوجھ سے بالکل ہی جھک گئی تھی۔ رات کی تاریکی میں اتنا بھاری بوجھ اٹھا کر چلنا نہایت دشوار تھا، لیکن ابن ساباط کو قدرتی طور پر جلدی تھی، وہ بار بار حاکمانہ انداز سے اصرار کرتا کہ تیز چلو اور چونکہ خود اس کا اپنا بوجھ بہت ہلکا تھا، اس لئے وہ خود تیز چلنے میں کسی طرح کی دشواری محسوس نہیں کرتا تھا۔ اجنبی تعمیل حکم کی پوری کوشش کرتا، لیکن بھاری بوجھ اٹھا کر دوڑنا انسانی طاقت سے باہر تھا۔ اس لئے پوری کوشش کرنے پر بھی زیادہ تیز نہیں چل سکتا تھا۔ کئی مرتبہ ٹھوکریں لگیں، بار ہا بوجھ گرتے گرتے رہ گیا۔
ایک مرتبہ اتنی سخت چوٹ کھائی کہ قریب تھا کہ گر جائے۔ پھر بھی اس نے رکنے کا، سستانے کا نام نہ لیا۔ گرتا پڑتا اپنے ساتھی کے ساتھ بڑھتا ہی گیا، لیکن ابن ساباط اس پر بھی خوش نہ تھا، اس نے پہلے تو ایک دو مرتبہ اسے تیز چلنے کا حکم دیا۔ پھر بے تامل گالیوں پر اتر آیا۔ ہر لمحے کے بعد اسے ایک سخت گالی دیتا اور کہتا: تیز چلو! اتنے میں ایک پل آگیا۔ یہاں چڑھائی تھی، جسم کمزور اور تھکا ہوا۔ بوجھ بے حد بھاری، اجنبی سنبھل نہ سکا اور بے اختیار گر پڑا۔ ابھی وہ اٹھنے کی کوشش ہی کر رہا تھا کہ اوپر سے ایک سخت لات پڑی۔ یہ ابن ساباط کی لات تھی۔ اس نے غضب ناک ہو کرکہا: ’’اگر اتنا بوجھ سنبھال نہیں سکتا تھا تو لاد کر لایا کیوں؟‘‘ اجنبی ہانپتا ہوا اٹھا، اس کے چہرے پر درد و نقاہت کی جگہ شرمندگی کے آثار پائے جاتے تھے۔ اس نے فوراً گٹھڑی اٹھا کر پیٹھ پر رکھی اور پھر روانہ ہوا۔(جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment