قسط نمبر 10
حضرت عامرؒ کی زندگی باوجود پاکیزہ اور بہترین صفات اور اس قدر زہد و تقویٰ اور امانت و ایمان داری کے پریشانیوں، تلخیوں اور رنجشوں سے خالی نہیں رہی۔ چناں چہ ان کے لیے بصرہ کا ایک آدمی بڑی پریشان اور اذیت کا سبب بنا۔ واقعہ یہ ہوا:
بصرہ کا ایک محافظ ذمیوں (مسلمانوں کے ملک میں ٹیکس ادا کر کے رہنے والے غیرمسلم) میں سے ایک آدمی کو گردن سے مضبوط پکڑے ہوئے گھسیٹ گھسیٹ کر لے جا رہا تھا۔ اور وہ ذمی لوگوں کو مدد کے لیے پکار پکار کر کہ رہا تھا: ’’مجھے بچائیے! مجھے بچائیے! حق تعالی آپ لوگوں کو بچائے گا۔ اے مسلمانو! اپنے نبیؐ کے ذمے کی حفاظت کرو۔‘‘
اتنے میں حضرت عامرؒ کا وہاں سے گزر ہوا تو انہوں نے یہ سارا واقعہ دیکھ لیا اور آگے بڑھ کر ذمی سے پوچھا: ’’کیا تم نے جزیہ (ٹیکس) ادا کردیا ہے؟‘‘
اس نے جواب دیا: جی ہاں! میں نے ادا کر دیا ہے۔
پھر حضرت عامرؒ اس آدمی کی طرف متوجہ ہوئے، جس نے اس ذمی کو پکڑا ہوا تھا اور اس سے پوچھا: آپ اس سے کیا چاہتے ہیں؟ اسے کیوں پکڑا ہوا ہے؟
اس نے کہا: میں اس کو اپنے ساتھ لے جانا چاہتا ہوں، تاکہ یہ افسر صاحب کا باغیچہ صاف کرے۔
حضرت عامرؒ نے ذمی سے کہا: کیا تم خوشی سے اس کام کے لیے تیار ہو؟
اس نے صاف انکار کردیا اور کہا کہ میں بالکل تیار نہیں ہوں۔ کیوں کہ یہ کام میرے بس کا نہیں ہے، اس سے میری توانائی ضائع ہو جائے گی اور یہ کام مجھے اپنے بال بچوں کی روزی کمانے سے روک دے گا۔
یہ سن کر حضرت عامرؒ سرکاری محافظ کو کہنے لگے: ’’اس ذمی کو چھوڑ دیجئے‘‘!
اس نے کہا: میں اس کو نہیں چھوڑوں گا۔
حضرت عامرؒ نے جب دیکھا کہ سرکاری محافظ ذمی کو ایسے نہیں چھوڑے گا، تو انہوں نے اپنی چادر ذمی کے اوپر ڈال دی اور پولیس والے کو مخاطب کر کے کہنے لگے: ’’خدا پاک کی قسم! جب تک میں زندہ ہوں (میرے سامنے) حضرت محمدؐ کا عہد (ذمہ) کوئی نہیں توڑ سکتا۔‘‘
اس کے بعد لوگ جمع ہوگئے اور انہوں نے سرکاری محافظ کے مقابلے میں عامرؒ کی حمایت کی اور ذمی کو محافظ کے ہاتھ سے زبردستی چھڑوا دیا۔
لیکن محافظ کے حامی اور ساتھیوں نے حضرت عامرؒ پر قانون شکنی، حاکم وقت کی نافرنی اور ’’اہل سنت والجماعت‘‘ سے بغاوت کا الزام لگا دیا۔ پھر یہ چرچا کرنے لگے کہ:
عامرؒ تو ایک عجیب آدمی ہے، جو عورتوں سے شادی نہیں کرتا اور جانوروں کا گوشت اور دودھ استعمال نہیں کرتا اور اپنے آپ کو وقت کے حکمرانوں کے ہاں جانے سے مستثنیٰ سمجھتا ہے اور یہ باتیں انہوں نے امیر المؤمنین حضرت عثمان بن عفانؓ تک پہنچا دیں۔ امیر المؤمنین حضرت عثمان بن عفانؓ نے والیٔ بصرہ کو حکم دیا کہ عامرؒ کو اپنے پاس بلا کر ان تمام الزامات کے متعلق ان سے تحیقیق کر کے مجھے اطلاع کردیں۔
چناں چہ بصرہ کے حاکم نے حضرت عامرؒ کو بلا کر بتا دیا کہ امیر المؤمنینؓ نے مجھے ان باتوں کی تحقیق و تفتیش کا حکم دیا ہے جو لوگوں نے آپ کی طرف منسوب کی ہیں۔
حضرت عامرؒ نے کہا: بالکل آپ مجھ سے پوچھیں، میں آپ کو صاف صاف بتادوں گا۔
والی بصرہ نے پوچھا: کیا وجہ ہے کہ آپ رسول اقدسؐ کی سنت سے اعراض کررہے ہیں؟ یعنی آپ نے شادی کیوں نہیں کی؟
انہوں نے جواب دیا: میں نے شادی کو اس لیے نہیں چھوڑا کہ میں رسول اقدسؐ کی سنت سے انکاری ہوں، کیوں کہ میں خود گواہی دیتا ہوں کہ اسلام میں رہبانیت نہیں ہے (رہبانیت کا مطلب یہ ہے کہ شریعت کی حلال کردہ چیزوں کو اپنے اوپر حرام کردیا جائے) بلکہ میں شادی اس لیے نہیں کی کہ میں نے سوچا میرا ایک ہی نفس ہے اور اسے بھی میں نے رب تعالیٰ کی عبادت کے لیے وقف کردیا ہے، اگر شادی کرلوں گا تو مجھے ڈر ہے کہ کہیں بیوی اس نفس پر غالب نہ آجائے (اور اس کو عبادت سے نکال نہ دے)۔‘‘
والی بصرہ نے پھر سوال کیا: آپ گوشت کیوں نہیںکھاتیِ؟
انہوں نے جواب دیا: میں تو گوشت کھاتا ہوں جب جی چاہتا ہے، ہاں جب جی نہیں کرتا یا جی چاہتا ہے، مگر ملتا نہیں تو اس صورت میں نہیں کھاتا۔
والی بصرہ نے سوال کیا: ’’آپ پنیر کیوں نہیں کھاتے؟
انہوں نے جواب دیا: ’’میں جہاں رہتا ہوں، وہاں مجوسی پنیر بناتے ہیں اور وہ ایسے لوگ ہیں جو حلال اور مردار میں تمیز نہیںکرتے، تو مجھے ڈر ہوتا ہے کہ کہیں انہوں نے پنیر کے اندر مردار بکری کا منفحہ (بکری کے دودھ پیتے بچے کو ذبح کر کے ایک چیز نکالی جاتی ہے، جس سے پنیر بنایا جاتا ہے) نہ ڈال دیا ہو، البتہ جب بھی دو مسلمان مردوں نے مجھے یہ بتایا کہ یہ پنیر مذبوحہ (یعنی ذبح کی ہوئی) حلال بکری کے منفحہ سے بنا ہوا ہے تو میں نے کھایا ہے۔
والی بصرہ نے پھر پوچھا کہ آپ حکمرانوں کے پاس ان کی مجالس میں کیوں نہیں آتے؟
انہوں نے جواب دیا: آپ (حکمرانوں) کے دروازوں پر بہت سارے ضرورت مند کھڑے رہتے ہیں، آپ ان کی ضروریات اور حاجتیں پوری کریں اور جن کو آپ کے پاس آنے کی ضرورت نہ ہو، ان کو (آپ اپنے حال پر) چھوڑ دیں۔(جاری ہے)