محمد قاسم
افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات قطر میں شروع ہوں گے، جس کیلئے طالبان شوریٰ نے مزید گائیڈ لائن جاری کر دی ہے۔ تاہم طالبان چھ مہینے کے اندر معاہدے کیلئے تیار نہیں، اور زلمے خلیل زاد کو اس حوالے سے آگاہ کیا جائے گا۔ دوسری جانب پاکستان نے کابل حکومت پر واضح کر دیا ہے کہ اگر افغاننستان میں امن کیلئے اسے مدد چاہیے تو الزامات بند کرنا پڑیں گے۔ ’’امت‘‘ کو دستیاب اطلاعات کے مطابق افغانستان میں قیام امن کیلئے طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کا ایک اہم دور قطر میں شروع ہو رہا ہے، جو تین ادوار پر مشتمل ہو گا۔ امریکی وفد کی قیادت زلمے خلیل زاد کریں گے، جس میں سی آئی اے، نیشنل سیکورٹی ایجنسی اور امریکی فوج کے اہلکار موجود ہوں گے۔ افغان طالبان کی جانب سے مولوی عباس استنکزئی وفد کی قیادت کریں گے۔ دیگر رہنمائوں میں مولوی شہاب الدین دلاور، مولوی احمد خان، مولوی ضیاء الرحمان اور سہیل شاہین ترجمان کے فرائض سرانجام دیں گے۔ جبکہ افغانستان میں طالبان دور کے وزیر داخلہ ملا خیراللہ خیرخواہ اور ملا فاضل جو افغان طالبان کے دور کے آرمی چیف تھے، کے علاوہ مولوی عبدالقیوم ذاکر کی شرکت بھی یقینی ہے۔ البتہ اس بار مذاکرات میں حقانی نیٹ ورک کے خلیل حقانی قطر کا ویزہ نہ ہونے کی وجہ سے شرکت نہیں کر سکیں گے۔ ذرائع کے مطابق افغان طالبان کے پاکستان میں بانی رہنما ملا برادر کی رہائی کے بعد انہوں نے افغان شوریٰ کے اراکین کے ساتھ رابطے کئے ہیں اور ان سے مذاکرات کے حوالے سے بات چیت کی گئی ہے۔ ملا برادر نے افغان مسئلے کا سیاسی حل نکالنے کے لئے طالبان کو اپنے مطالبات سے پیچھے نہ ہٹنے کے ساتھ یہ بھی تجویز دی ہے کہ چھ ماہ کے اندر امریکہ کی جانب سے معاہدے کیلئے کی جانے والی کوششیں کامیاب نہیں ہو سکتیں، اس لئے امریکہ کو قائل کیا جائے کہ وہ طالبان کو معاہدے کے لئے زیادہ وقت دے۔ کابل میں موجود ذرائع کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے ہلمند شوریٰ نے افغان طالبان کے سیاسی رہنمائوں کو آگاہ کر دیا ہے کہ چھ مہینے میں صرف جنگ بندی، طالبان قیدیوں کی رہائی اور افغانستان میں صدارتی انتخابات میں طالبان کو کردار دینے کے علاوہ اور مزید معاہدے نہیں ہو سکتے، کیونکہ افغان طالبان کے ہزاروں جنگجوئوں کو اس عمل کے حوالے سے مطمئن کرنے کیلئے تقریباً ایک سال سے زائد عرصہ چاہیے۔ جبکہ امریکہ نے افغان طالبان سے کہا ہے کہ وہ نومبر 2020ء سے قبل افغانستان سے تمام افواج نکالنا چاہتے ہیں۔ کابل میں موجود ان ذرائع نے بتایا کہ افغانستان میں امریکی حکام کو جنگ کے حوالے سے مشاورت دینے اور مذاکرات کے حوالے سے تمام معاملات طے کرنے کیلئے آنے والے 150 فوجی مشیر ایک خصوصی طیارے کے ذریعے بگرام سے جرمنی اور وہاں سے امریکہ چلے گئے ہیں۔ افغانستان میں امریکی سفارتکاروں، سی آئی اے اور ان افراد کو جو امریکہ کی طرف سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی کوششوں میں شریک ہیں۔ مشورہ دیا گیا کہ کوئی ایسا راستہ تلاش کیا جائے کہ افغان طالبان اس بات پر راضی ہوجائیں کہ دنیا کو یہ باور کرایا جا سکے کہ چین، روس، پاکستان، ایران، طالبان اور افغان حکومت سمیت خلیجی ممالک کے مطالبے پر افغانستان میں امن مذاکرات کے ذریعے امریکی فوج نکل رہی ہے۔ دوسری جانب پاکستان نے کابل حکومت کو واضح کر دیا ہے کہ اگر پاکستان کی مدد چاہیے تو مزید الزامات لگانے کا سلسلہ فوری طور پر بند کیا جائے اور افغانستان میں قید پاکستانی قیدیوں کی فہرست حوالے کی جائے۔ ’’امت‘‘ کے ذرائع کے بقول پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی اور افغان وزیر خارجہ صلاح الدین ربانی کے ساتھ علیحدگی میں اس حوالے سے بات چیت کی ہے اور انہیں پیغام دیا ہے کہ آئندہ پاکستان پر الزام لگانے سے اسلام آباد ان کی کوئی مدد نہیں کرسکے گا۔ کابل حکومت اور طالبان کے درمیان بین الافغانی مذاکرات کے لئے بھی پاکستان اپنی کوششیں کرے گا۔ لیکن پہلے امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا کوئی نتیجہ سامنے آ جائے۔ تاہم اب وہ وقت گزر گیا ہے کہ ایک طرف الزامات لگائے جائیں اور دوسری جانب پاکستان کو دبائو میں لانے کی کوشش کی جائے۔ پاکستان کے خلاف افغان سرزمین کو کسی کو بھی استعمال نہیں کرنے دیا جائے گا۔ نیز پاکستانی قیدیوں کی فہرست فوری طور پر حوالے کی جائے۔ کیونکہ ان میں اکثریت کو اغوا کر کے انہیں طالبان کا حامی قرار دے کر افغان حکومت اور امریکہ کے حوالے کیا گیا ہے۔ جبکہ بہت سے مزدوروں کو اپنی تنخواہیں مانگنے پر انہیں طالبان کا ساتھی قرار دے کر قید میں ڈالا گیا ہے۔ یہ سب کچھ اس کے باوجود کیا گیا کہ پاکستان نہ صرف افغان قیدیوں کے ساتھ اچھا سلوک کر رہا ہے، بلکہ غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کو بھی تنگ نہیں کیا جارہا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ گزشتہ اٹھارہ برسوں میں پہلی بار پاکستان نے کابل حکومت کو انتہائی مفصل اور دو ٹوک پیغام پہنچایا ہے۔ جس پر افغان حکومت نے آئندہ الزامات نہ لگانے کا وعدہ کیا ہے۔ پاکستانی حکام نے افغان حکومت کو یہ بھی پیشکش کی ہے کہ اگر ان کے پاس کوئی ایسے ثبوت ہیں کہ کسی واقعے میں کوئی پاکستانی یا کوئی ایسا شخص جو پاکستان میں رہتا ہے ملوث ہو، تو نہ صرف اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی، بلکہ انہیں ہر طرح روکا جائے گا۔ لیکن افغانستان کے پاس ایسا کوئی ثبوت نہیں، بلکہ وہ بھارتی ایما پر پاکستان پر الزامات عائد کر رہا ہے۔ اس رویے کی وجہ سے نی صرف افغانستان اور پاکستان کے تعلقات خراب ہو رہے ہیں، بلکہ پاکستان میں موجود افغان باشندوں کے حوالے سے بھی مشکلات پیش آرہی ہیں۔