سرفروش

قسط نمبر: 201
عباس ثاقب
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جس نے نوجوانی کے امنگوں بھرے دور میں اپنی جان خطرے میں ڈال دی۔ صرف اس لئے کہ وطن عزیز پاکستان کو دشمنوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔ جمال صاحب کراچی کے قدیم رہائشی ہیں اور ان دنوں گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ عمر کے آخری حصے میں بصد اصرار اس بات پر آمادہ ہوئے کہ اپنی زندگی کے تہلکہ خیز گوشوں سے پردہ اٹھائیں۔ ان کا اصل نام کچھ اور ہے۔ بعض نا گزیر اسباب کی بنا پر انہیں ’’جمال‘‘ کا فرضی نام دیا گیا ہے۔ اس کہانی کو ڈرامائی شکل دینے کیلئے کچھ زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی۔ کیونکہ یہ حقیقی ایڈوینچر کسی سنسنی خیز ناول سے زیادہ دلچسپ ہے۔ جمال صاحب کی کہانی ان لوگوں کیلئے دعوتِ فکر ہے، جنہیں یہ ملک بغیر کسی جد و جہد اور محنت کے ملا اور انہوں نے اس کی قدر کرنے کے بجائے اسی سے شکایات شروع کر دیں۔ امید ہے کہ قسط وار پیش کی جانے والی یہ کہانی ’’امت‘‘ کے خوش نظر قارئین کی پذیرائی حاصل کرے گی۔ (ادارہ)
انہوں نے اپنی طرف سے شاید بات مکمل کر دی تھی۔ لیکن میرے ذہن میں ابھی کئی معاملات کے حوالے سے تجسس باقی تھا، خصوصاً شازیہ پر بیتنے والی قیامت کے بارے میں تو ابھی میں کچھ بھی نہیں جان پایا تھا۔ لیکن وقت کافی گزر چکا تھا اور میں نہیں چاہتا تھا کہ مانک خود مجھے بلانے کے لیے یہاں پہنچ جائے اور ان دونوں کی جذباتی کیفیت بھانپ کر وہ کوئی نتیجہ اخذکر سکے۔ چنانچہ میں نے باقی گفتگو انہیں وہاں سے چھڑا لے جانے کے بعد تک ملتوی کر دی۔
میں نے کہا۔ ’’آپ کے پورے خاندان پر ظلم کا جو پہاڑ ٹوٹا، اس کی کوئی تلافی اور ازالہ تو خیر ممکن ہی نہیں۔ بس اتنی دعا کر سکتا ہوں کہ کل کا دن آپ دونوں کی ابتلا کا آخری دن ثابت ہوگا انشاء اللہ۔ ہمت و حوصلے سے یہ وقت گزاریں اور میرے مقصد کی کامیابی کے لیے دعا کریں۔ بے شک اللہ کی کرم نوازی کے بغیر کچھ بھی ممکن نہیں ہے‘‘۔
ان دونوں نے میری توقع سے کہیں کم وقت میں اپنے آپ کو سنبھال لیا تھا۔ تبھی جانے کیسے میرے ذہن میں ایک خیال آیا اور میں نے ان دونوں کو ایک ساتھ مخاطب کرتے ہوئے پوچھا۔ ’’مجھے کچھ کچھ اندازہ تو ہوگیا ہے، لیکن پھر بھی پوری دیانت کے ساتھ بتائیں کہ آپ دونوں میں سے کون زیادہ بہادر اور مضبوط اعصاب کا مالک ہے؟‘‘۔
ان دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ بالآخر رخسانہ نے سنجیدہ لہجے میں کہا۔ ’’یہ خود نہیں کہے گی، لیکن میں مانتی ہوں کہ جمیلہ چھوٹی ہونے کے باوجود، ماشاء اللہ مجھ سے زیادہ بہادر اور حاضر دماغ ہے۔ کوئی بھی مشکل پڑے، یہ آسانی سے ہمت نہیں ہارتی، بلکہ میرا حوصلہ بھی بڑھاتی ہے‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’پھر تو میری یہ چھوٹی بہن کوئی نئی چیز سیکھنے میں بھی تیز ہوگی‘‘۔
اس بار جمیلہ نے خود کہا۔ ’’ہاں، مجھے ہر نئی بات جاننے اور سیکھنے میں مزا آتا ہے اور مجھے زیادہ مشکل بھی نہیں لگتا۔ آپ بتائیے بھائی جان، مجھے کیا سکھانا چاہتے ہیں؟‘‘۔
میں نے اس شوخ لڑکی کے سوال کا جواب دینے سے پہلے ایک بار پھر روشن دان پر نظر ڈال کر اطمینان کیا اور پھر احتیاطاً کمرے کے دروازے سے جھانک کر دیکھا کہ وہاں کوئی ہماری باتیں سننے کے لیے کان لگائے تو نہیں بیٹھا۔ پھرمیں نے اپنے لباس کی اندرونی جیب میں ہاتھ ڈال کر پستول نکالا اور جمیلہ کے ہاتھ میں دے دیا۔ میں نے اس کی آنکھوں میں حیرت کی فراوانی دیکھی۔ اس نے اگر کوئی آتشیں ہتھیار قریب سے دیکھا بھی ہوگا تو اسے ہاتھ میں لینے کا موقع کہاں ملے گا۔
اس کا پہلا سوال میری توقع کے عین مطابق تھا۔ ’’یہ تو کافی بھاری ہے!‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’ہاں، تمہیں اسے دونوں ہاتھوں سے مضبوطی سے پکڑنا ہوگا۔ اس کے وزن سے اچھی طرح مانوس ہوجاؤ، پھر میں تمہیں اسے چلانے کا طریقہ سکھاؤں گا‘‘۔
اس نے بے ساختہ پوچھا۔ ’’کیا اس میں گولیاں بھری ہوئی ہیں؟‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’کہاں! اس میں آٹھ گولیوں والا میگزین لگتا ہے۔ یہ پوری طرح لوڈ ہے‘‘۔
میں نے اس کے ہاتھ سے پستول لے کر میگزین نکال کر دکھایا اور پھر واپس لوڈ کرنے اور پستول کا چیمبر پیچھے کھینچ کر کاک کرنے کا طریقہ بھی دکھایا۔ ’’اب یہ گولی فائر کرنے کے لیے تیار ہے۔ نشانہ پکا کرنے کے لیے تو کافی مشق کرنی پڑے گی، لیکن آپ اس سے بدطینت شخص کو ڈرا کر خود سے دور رہنے پر مجبور کر سکتی ہیں اور ضرورت پڑنے پر قریب سے گولی چلا کر ہلاک بھی کر سکتی ہیں۔ یہ خیال رکھیں کہ نشانہ کارگر ہونا چاہیے۔ جب تک وہ گولی کھاکر ڈھیر نہ ہو جائے، آپ بار بار ٹریگر دباکر گولی چلاتی رہیں گی‘‘۔
اس نے میگزین کے بغیر کئی بار گولی چلانے کی کوشش کی۔ رفتہ رفتہ پستول کے دستے پر اس کی گرفت مضبوط ہوتی جا رہی تھی اور نال کی لرزش بھی کم ہوگئی تھی۔ اس نے وعدہ کیا کہ وہ بندکمرے میں خالی پستول کے ساتھ مسلسل مشق کرے گی۔ میں نے اسے پستول میں میگزین لوڈ ہونے پر سیفٹی کیچ (حفاظتی لاک) چڑھائے رکھنے سمیت دیگر احتیاطیں اپنانے کی سختی سے ہدایت کی۔
وہ اب پہلے سے کہیں زیادہ پُر اعتماد اور پُر جوش دکھائی دے رہی تھی۔ میں نے کہا۔ ’’میں نہیں سمجھتا کہ موجودہ صورتِ حال میں اس کے استعمال کا کوئی موقع آئے گا۔ میں نے یہ ہتھیار صرف احتیاطاً تمہارے حوالے کیا ہے‘‘۔
اس نے پستول اپنی تحویل میں لیتے ہوئے کہا۔ ’’آپ فکر نہ کریں۔ میں ہر ممکن احتیاط کروں گی۔ لیکن اس کی موجودگی سے ہمارا حوصلہ بہت بلند ہوا ہے۔ آپ کا بے حد شکریہ!‘‘۔
میں نے اسے ایک محفوظ جگہ پستول چھپاتے دیکھا اور پھر اٹھ کھڑا ہوا۔ ’’اب میں چلتا ہوں۔ میں اس لعنتی شخص، مانک کو کہوں گا کہ تمہیں اپنی کوٹھی سے رخصت کرے۔ لہٰذا اگر یہ پرسوں تمہیں اپنے ساتھ چلنے کو کہے تو مزاحمت نہ کرنا‘‘۔ (جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment