عمران خان
’’دکان مسمار کئے جانے سے چند دن قبل ہی میں نے چین سے لاکھوں روپے کا کراکری کا سامان منگوایا تھا، جو اب بھی میرے ایک عزیز کے گھر پر پڑا ہوا ہے۔ اگر مجھے ذرا سا بھی اندازہ ہوتا کہ ہم پر یہ قیامت ٹوٹنے والی ہے تو میں چین سے تو کیا، مقامی تاجروں سے خریدا گیا سامان بھی دکان پر نہ رکھتا۔ اب ہم لاکھو ں روپے کے مقروض ہوچکے ہیں۔ جن تاجروں سے مال منگوایا ہے، انہیں رقم تو ہر حال میں ادا کرنی ہے‘‘۔ یہ باتیں ایمپریس مارکیٹ کی معروف کراکری شاپ کے مالک فاروق نے ’’امت‘‘ سے بات چیت کرتے ہوئے کہیں۔ فاروق کا مزید کہنا تھا کہ اس کی دکان سے 6 افراد کے خاندانوں کا روزگار وابستہ تھا۔ ان کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں جو اسکول جاتے ہیں۔ یہ لوگ کرائے کے مکانوں میں رہتے ہیں۔ اب یہ تمام اخراجات کیسے پورے کریں گے۔ اس حوالے سے ارباب اختیار کو سوچنا چاہئے۔
تجازات کے خلاف آپریشن کے نام پر جہاں ایمپریس مارکیٹ کے اطراف سے ہزاروں دکانوں کا خاتمہ کیا گیا۔ وہیں ایمپریس مارکیٹ کے اندر قائم ایسی 22 دکانیں بھی مسمار کی گئیں، جنہیں خود کے ایم سی کے افسران نے شہریوں کو الاٹ کیا تھا اور اس کے عوض ہر قسم کی سرکاری فیسیں و صول کی گئی تھیں۔ سابق ملکہ برطانیہ ’’کوئن وکٹوریہ‘‘ سے منسوب پونے دو صدی قبل 1850ء کی دہائی میں قائم ہونے والی کراچی کی تاریخی ایمپریس مارکیٹ میں 1948ء میں کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن کے تحت مجموعی طور پر 192 دکانیں شہریوں کو الاٹ کی گئی تھیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان الاٹ شدہ دکانوں کو مسمار کرنے سے قبل بھی نومبر کے مہینے میں کے ایم سی کے افسران ان دکانوں سے ماہانہ کرائے کی مد میں کئی مہینوں کی ایڈوانس رقم وصول کرکے گئے تھے۔ یہ رقم دکانیں مسمار کرنے سے 3 روز قبل کے ایم سی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے افسران نے وصول کی تھی۔ حالانکہ ان افسران کو معلوم تھا کہ اگلے کچھ دنوں میں ان دکانوں کو گرادیا جائے گا۔
انہی مسمار شدہ دکانوں میں جہاں خشک میوہ جات، گوشت، اناج اورگروسری کی دیگر بڑی دکانیں شامل ہیں۔ وہیں ایمپریس مارکیٹ کی کراکری کی معروف دکان بھی ہے، جس کے مالک فاروق ہیں۔ فاروق نے ’’امت‘‘ سے گفتگو میں بتایا کہ وہ اس وقت اپنی دکان کے ملبے پر تھوڑا سا سامان رکھ کر بیٹھا ہوا ہے، تاکہ اسے بیچ کر گزر اوقات پورا کر سکے۔ فاروق کا کہنا تھا کہ اس کے ساتھ بہت بڑا ظلم ہوا ہے۔ اگر اسے پہلے سے معلوم ہوتا کہ اس کی دکان کو یوں اچانک مسمار کر کے اسے بے روزگار کردیا جائے گا، تو وہ کہیں نہ کہیں لازمی طور پر انتظام کرلیتا تاکہ اس کا اس قدر نقصان نہ ہوتا۔ فاروق کے مطابق اس کے پاس کے ایم سی کی جانب سے دکان کی الاٹمنٹ کی مد میں اور ماہانہ کرائے کی مد میں جاری کردہ 1976ء کی رسیدیں تک موجود ہیں۔ جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی دکان سمیت دیگر دکانیں غیر قانونی نہیں تھیں۔ لیکن جب تجاوزات کے خلاف آپریشن کیا گیا تو تمام دکان بھی گرادی گئیں اور انہیں کہا گیا کہ ایمپریس مارکیٹ کو ایک ماڈل بنایا جا رہا ہے، جہاں پر عجائب خانہ وغیرہ بنائے جائیں گے۔ اگر دکانیں گرانا لازمی تھا تو پہلے اسے متبادل کے طور پر کوئی زمین، پلاٹ تو دیا جاتا۔ جہاں پر وہ اپنی دکانیں قائم کرکے اپنا سامان وہاں منتقل کرتا۔ اس کے بعد بھلے اس کی دکانوں کو گرادیا جاتا تو اسے کوئی اعتراض نہ ہوتا۔
فاروق کا مزید کہنا تھا کہ اس کی دکان پہلے اس کے دادا نے شروع کی تھی۔ پھر اس کے والد ساری زندگی یہ دکان چلاتے رہے۔ والد کے بعد گزشتہ 30 برس سے وہ خود دکانیں چلا رہا ہے۔ اس دکان سے مجموعی طور پر 6 افراد کے خاندانوں کا رزق وابستہ تھا۔ جن میں خود فاروق، اس کے دو شادی شدہ بیٹے، ایک بھائی اور دو پرانے مزدور شامل ہیں، جو گزشتہ کئی دہائیوں سے اس کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ فاروق کے بقول ’’ایمپریس مارکیٹ میں قائم مجموعی طور پر 192 دکانوں میں سے 22 دکانیں جو صحن میں قائم تھیں، ان کو پہلے گرایا گیا اور ایمپریس مارکیٹ کی راہداریوں اور اندر موجود 170 دکانوں میں سے جو اب تک باقی ہیں، انہیں بھی زبانی طور پر نوٹس دے دیا گیا ہے کہ وہ بھی اگلے ایک سے دو ماہ میں اپنی دکانیں خالی کردیں۔ اگر یہی الٹی میٹم صحن میں موجود دکانداروں کو دیا جاتا تو وہ بھی مناسب انداز میں اپنے لئے بندوبست کر سکتے تھے۔ پھر ہمارے پاس جو مزدور برسوں سے کام کر رہے تھے، وہ اب کہاں جائیں گے۔ میری دکان تو مسمار ہوگئی، لیکن اس میں ان مزدوروں کا کیا قصور ہے۔ اسی چیز کا احساس کرتے ہوئے اب تک میں نے اپنے مزدوروں کو کام سے نہیں نکالا ہے۔ اب بھی انہیں دیہاڑی کے حساب سے مزدوری دے رہا ہوں، تاکہ ان کے بچوں کے کفالت ہوتی رہے۔ یہی کام دیگر مسمار شدہ دکانوں کے مالکان بھی کر رہے ہیں۔ یہ مزدور بھی وفاداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے روزانہ آتے ہیں اور مالکان کے ساتھ دکانوں کے ملبے پر کچھ نہ کچھ سامان رکھ کر فروخت کرتے ہیں۔ لیکن یہ احساس میئر کراچی اور کے ایم سی کے افسران کے دلوں میں کیوں نہیں آسکا۔ جنہوں نے اس آپریشن کی آڑ میں ہزاروں لوگوں کو بے روزگار کر دیا۔ کسی کو بے روزگار کرنا کہاں کا ثواب ہے۔ کیا ان کے بچے نہیں ہیں۔ کیا ان کے گھروں میں ماں باپ اور اہل خانہ نہیں ہیں۔ اگر خدا نخواستہ ان کے ساتھ ایسی صورت حال پیدا ہوجائے جس میں ان کا روزگار کا ذریعہ ختم کر دیا جائے تو یہ افسران اور حکومتی ارباب اختیار کیا کریں گے‘‘۔
فاروق کا کہنا تھا کہ اسے صرف دو گھنٹوں کا الٹی میٹم دیا گیا اور پھر دکانیں مسمار کردی گئیں۔ اس نے دکان میں موجود سامان کو بچانے کیلئے کچھ سامان اپنے گھر منتقل کیا اور کچھ سامان اپنے عزیزوں کے گھروں پر رکھوا دیا۔ کیونکہ چند گھنٹوں کی مہلت میں وہ نہ تو کوئی دکان حاصل کر سکتا تھا اور نہ ہی گودام۔ لیکن دکان میں موجود سامان کو تو بچانا تھا، جس کو خریدنے کیلئے اس نے جمع کئے گئے لاکھوں روپے لگا رکھے تھے۔ فاروق کے مطابق اس نے دکان مسمار ہونے سے چند روز قبل ہی چین سے مال منگوایا تھا۔ اگر اسے معلوم ہوتا کہ یہ ظلم ہوگا تو وہ یہ سامان کبھی نہ منگواتا۔ اب اس سامان کو واپس چین بھی نہیں بھجوایا جا سکتا۔ لیکن جن سے پیسے لے کر سامان منگوایا تھا، انہیں تو پیسے واپس کرنے ہی ہیں۔ فاروق کا کہنا تھا کہ اسے امید تھی کہ جس طرح ایمپریس مارکیٹ کے عقب میں واقع شہاب الدین مارکیٹ کے متاثرین کو متبادل فراہم کیا گیا تھا، اسی طرح اس سمیت دیگر دکانداروں کو بھی دیا جائے گا۔ اور اس کا، کے ایم سی کے افسران اب تک یقین دلا رہے ہیں۔ لیکن یہ وعدے صرف زبان تک محدود ہیں۔ عملی طور پر کچھ نہیں کیا جا رہا ہے۔