ملعونہ آسیہ کی منتقلی کیلئے امریکی دبائو میں اضافہ

امت رپورٹ
ملعونہ آسیہ کی منتقلی کے لئے امریکی دبائو میں اضافہ ہو گیا ہے۔ تاہم حکومت یہ قدم اٹھانے کے لئے ابھی ماحول کو مناسب نہیں سمجھتی۔ دوسری جانب ملعونہ کو پناہ دینے کی متعدد پیشکشوں کے باوجود کسی ملک نے تاحال اس سلسلے میں کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ملعونہ کا وکیل سیف الملوک بھی برطانیہ میں سیاسی پناہ لینے کے لئے ہاتھ پیر مار رہا ہے۔
اسلام آباد میں موجود ذرائع نے بتایا کہ ملعونہ آسیہ کو رہا کرانے کی پچھلی نو سالہ کوششوں کے کامیاب ہونے کے بعد اب امریکہ اور مغربی ممالک کو یہ پریشانی لاحق ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آ جانے کے باوجود ملعونہ آسیہ کو پاکستان بیرون ملک بھیجنے میں تاخیر کیوں کر رہا ہے۔ اس سچویشن کو یہ مغربی قوتیں اپنی طویل کوششوں کی کامیابی کے بعد ایک ناکامی کے طور پر دیکھ رہی ہیں۔ آسیہ ملعونہ کی رہائی پر سب سے زیادہ احتجاج کرنے والی تحریک لبیک پاکستان کے خلاف کریک ڈائون کر کے حکومت نے اپنے تئیں اس کی آواز تو فی الحال دبا دی ہے۔ تاہم ذرائع کے بقول حکومت کے لئے اصل مسئلہ یہ ہے کہ موجودہ حالات میں اگر ملعونہ کو بیرون ملک بھیج دیا جاتا ہے تو ڈنڈے کے زور پر جو چنگاری دبائی گئی ہے، وہ دوبارہ بھڑک نہ جائے۔ ذرائع کے مطابق اب تک حکومت کو جو جائزہ رپورٹس ملی ہیں۔ ان میں یہی خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ ملعونہ آسیہ کی رہائی کا معاملہ ابھی گرم ہے۔ ایسے میں نظرثانی اپیل کی قانونی کارروائی جھٹ پٹ نمٹا کر اگر ملعونہ کو بیرون ملک بھیج دیا جاتا ہے تو اس کے نتیجے میں بریلوی مکتبہ فکر کی وہ جماعتیں، جنہوں نے خود کو تحریک لبیک سے الگ کر لیا ہے، وہ بھی میدان میں نکل سکتی ہیں۔ جبکہ ختم نبوتؐ کے حساس موضوع کا تعلق صرف بریلوی مکتبہ فکر کے ساتھ نہیں جڑا ہوا، ملعونہ کی بیرون ملک منتقلی سے دیگر مکتبہ فکر کی مذہبی قوتیں بھی سڑکوں پر آ سکتی ہیں۔ اور یہ کہ اس صورت میں پابند سلاسل تحریک لبیک کے موقف کو بھی تقویت مل جائے گی اور وہ بائونس بیک کر سکتی ہے۔ لہٰذا صورت حال کے موافق ہونے کا انتظار کیا جا رہا ہے۔ تاہم یہ تاخیر امریکہ اور اس کے ہمنوا مغربی ممالک کو گراں گزر رہی ہے۔ ذرائع کے مطابق اسی جھنجھلاہٹ میں دبائو بڑھانے کے لئے امریکہ نے مذہبی آزادی کی خلاف ورزی کے نام پر پاکستان کا نام بلیک لسٹ میں شامل کیا۔ تاہم اس دبائو کا نتیجہ دیکھنے تک پاکستان کو یہ ’’رعایت‘‘ دیدی ہے کہ بلیک لسٹ میں نام شامل ہونے کے باوجود پاکستان کو پابندیوں سے مستثنیٰ قرار دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق امریکہ نے پاکستان کا نام بلیک لسٹ میں ڈال کر اپنا مقصد پورا کر لیا۔ آج پابندیوں سے استثنیٰ دیا ہے۔ کل جب جی چاہے گا یہ پابندیاں بحال کر دی جائیں گی۔ یعنی زمین پر لٹا کر کہا گیا ہے کہ زندہ رہ سکتے ہو۔ ذرائع کے مطابق یہ سیدھا آئی واش ہے۔ البتہ اگر امریکہ یہ اعلان کرتا کہ پاکستان کا نام بلیک لسٹ میں ڈالنا جلد بازی تھی اور اس کا ادراک ہونے پر وہ اپنا فیصلہ واپس لے رہا ہے تو بات الگ تھی۔
ذرائع کے مطابق امریکہ کے لئے ملعونہ آسیہ اہم نہیں، بلکہ یہ ایک نظریاتی فیکٹر ہے۔ جس کا مقصد اسلام کے خلاف عیسائیت کا دفاع کرنا ہے۔ مذہبی آزادی کی خلاف ورزی کے نام پر پاکستان کا نام بلیک لسٹ میں ڈال کر یہ الزام دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ انتہا پسندی کے خاتمے سے متعلق پاکستان کے دعوے درست نہیں۔ ذرائع کے بقول ملعونہ آسیہ کی فوری بیرون ملک منتقلی کے لئے پچھلے ایک ماہ سے ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے پس پردہ جو دبائو ڈالا جا رہا ہے۔ اس میں یہ طعنہ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ملعونہ آسیہ کو باہر بھیجنے میں مذہبی قوتوں کے رکاوٹ بن جانے کا مقصد یہ ہے کہ مذہبی قوتیں اب بھی حکومت سے زیادہ طاقتور ہیں اور پاکستان انتہا پسندی کے خاتمے کے لئے عملی طور پر کچھ نہیں کر رہا۔ ذرائع کے بقول امریکہ اور مغربی ممالک آسیہ کی منتقلی میں تاخیر کو اگرچہ اپنے تئیں مختلف معنی پہنانے کی کوشش کر رہے ہیں، تاہم پاکستان نے اس سلسلے میں وہی قدم اٹھانا ہے، جو اس کے اپنے مفاد میں ہو گا۔
پاکستان کا نام بلیک لسٹ میں شامل کرنے کے نتیجے میں بلی تھیلے سے باہر آ چکی ہے اور اب سابق امریکی سفیر رچرڈ اولسن نے بھی تصدیق کر دی ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے حالیہ اقدام ملعونہ آسیہ کے حوالے سے اٹھایا ہے۔ 2012ء سے 2015ء تک پاکستان میں سفیر اور بعد ازاں ایک برس تک افغانستان، پاکستان کے لئے امریکی خصوصی نمائندے رہنے والے رچرڈ اولسن نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ آسیہ مسیح کے بارے میں امریکہ نے اپنے تحفظات اٹھائے ہیں۔ پاکستان کو مذہبی آزادی کی خلاف ورزی کرنے والا ملک اس لئے قرار دیا گیا ہے کہ امریکہ کو پاکستان میں مذہبی اقلیتوں سے کئے جانے والے سلوک پر تشویش ہے۔ سابق امریکی سفیر کے بقول واشنگٹن کو یہ فکر اس لئے بھی ہے کہ ملک کی سب سے اعلیٰ عدالت کی جانب سے آسیہ مسیح کی بریت کے باوجود مظاہرین کے دبائو پر حکومت نے اب تک اسے اپنے پاس رکھا ہوا ہے۔
دوسری جانب ذرائع نے بتایا کہ کینیڈا، اٹلی، جرمنی اور آسٹریلیا سمیت دیگر مغربی ممالک ملعونہ آسیہ کو سیاسی پناہ دینے کی پیشکشیں تو کر رہے ہیں۔ تاہم ابھی تک کسی نے اس سلسلے میں عملی قدم نہیں اٹھایا۔ ذرائع کے بقول ملعونہ کو جلد از جلد پاکستان سے باہر نکالنے کی خواہش مند عالمی عیسائی تنظیموں کی کوشش ہے کہ کسی طرح کوئی ایک مغربی ملک، پاکستان میں اپنے سفیر کو ملعونہ آسیہ اور اس کے اہل خانہ کے لئے اپنے ملک کا پاسپورٹ جاری کرنے کی ہدایت کر دے تو وہ پاکستانی نہیں رہیں گے اور خود بخود اس ملک کے شہری بن جائیں گے۔ اس صورت میں انہیں کوئی روک نہیں سکے گا۔ تاہم ذرائع کے مطابق اب تک کسی مغربی ملک نے پاکستان میں اپنے سفارت خانے کو ملعونہ اور اس کے خاندان کے لئے اس نوعیت کی سفری دستاویزات تیار کرنے کی ہدایت نہیں کی ہے۔
ادھر ملعونہ آسیہ کا کیس لڑنے والا وکیل سیف الملوک بھی برطانیہ میں سیاسی پناہ کے لئے ہاتھ پیر مار رہا ہے۔ برطانوی ہفت روزہ ’’ دی اسپیکٹیٹر ‘‘ کو اپنے تازہ انٹرویو میں سیف الملوک نے بتایا کہ ملعونہ آسیہ کی بریت کے بعد اس نے اسلام آباد میں واقع فرانسیسی سفارت خانے میں پناہ لی تھی۔ جہاں اس نے تین راتیں گزاریں۔ بعد ازاں اسے سخت سیکورٹی میں ایئرپورٹ پہنچایا گیا۔ جہاں سے وہ ہالینڈ فرار ہو گیا۔ بعد ازاں جرمنی اور کینیڈا سمیت دیگر ممالک کے چکر لگا کر ملعونہ آسیہ کے کیس کو ہائی لائٹ کرتا رہا۔ برطانوی ہفت روزے کے بقول سیف الملوک کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ چند برس کے لئے پاکستان سے دور رہے، جب تک کہ ملعونہ آسیہ کا ایشو ٹھنڈا نہیں ہو جاتا۔ مختلف مغربی ممالک کے دورے کرنے والے سیف الملوک کو امید ہے کہ اسے برطانیہ میں سیاسی پناہ مل جائے گی، جہاں اس کی بیٹی سارہ اور نواسی مقیم ہیں۔ سیف الملوک اگرچہ کانفرنسوں میں شرکت کے لئے مختلف مغربی ممالک کے دورے کر رہا ہے، تاہم اس کا مستقل قیام برطانیہ میں اپنی بیٹی کے پاس ہے، جہاں وہ اپنی شناخت چھپا کر دن گزار رہا ہے۔ سیف الملوک نے انٹرویو کرنے والی پاکستانی نژاد خاتون رپورٹر سے بھی استدعا کی کہ اس کے گھر کی لوکیشن ظاہر نہ کی جائے۔

Comments (0)
Add Comment