گجرات کی خاتون قرآنی نسخہ کارھنے میں32برس منہمک رہیں

پہلی قسط
محمد زبیر خان
گجرات کی رہائشی خاتون نسیم اختر نے ہاتھ کی کشیدہ کاری سے قرآن پاک کی کتابت 32 برس کی محنت شاقہ سے مکمل کی۔ اس کار عظیم میں اٹھنے والے اخراجات انہوں نے اپنی جیب سے ادا کئے۔ کپڑے کے ایک درجن تھان خریدنے کیلئے جب انہوں نے گلّہ توڑا تو بچت کے پیسے اتنے ہی نکلے، جتنے کی ضرورت تھی۔ نہ ایک روپیہ زائد نہ ایک روپیہ کم۔ دکان دار نے ان کی لگن دیکھتے ہوئے کپڑے کی قیمت میں سے 200 روپے کی رعایت کرنا چاہی تو خاتون نے شائستگی سے انکار کر دیا۔ نسیم اختر نے بچپن میں گجرات کے ممتاز عالم دین مولانا اسلم جالندھری کے گھر میں قرآن پاک پڑھا اور ان کی صاحبزادی سے گھریلو دستکاری سیکھی۔ انہوں نے قرآن پاک کا ترجمہ کرنے میں مولانا اسلم جالندھری کی مدد بھی کی تھی۔ جس کی بدولت انہیں عربی کی لکھائی پر عبور حاصل ہو گیا تھا۔ سوئی دھاگے کی مدد سے قرآن پاک رقم کرنے پر انہیں امام کعبہ اور امام مسجد نبوی کی جانب سے دعوت دی گئی کہ وہ قرآن پاک کا یہ نادر نسخہ حرمین شریفین کی قرآن اکیڈمی کی زینت بنائیں۔ نسیم اختر حال ہی میں عمرے کی سعادت حاصل کر کے وطن لوٹی ہیں۔ ان کی انوکھی کاوش کے بارے میں تفصیلات جاننے کیلئے نمائندہ ’’امت‘‘ نے خاتون کے بیٹے اقبال سے وقت حاصل کیا اور گجرات کا رخ کیا۔ گھر پر نسیم اختر کے شوہر غلام مصطفیٰ اور بیٹے اقبال نے ہمارا پرتپاک استقبال کیا۔ ’’امت‘‘ کے اصرار پر نسیم اختر نے اس سعادت کی داستان بھی بیان کی۔ جو انہی کی زبانی نذر قارئین ہے:
’’یہ 1987ء کی بات ہے۔ میرا بیٹا چوتھی اور بیٹی چھٹی جماعت میں پڑھتی تھی۔ میرے دل میں خیال آیا کہ اپنے ہنر کو استعمال کرتے ہوئے قرآن پاک کی چند سورتیں سوئی دھاگے سے لکھتی ہوں۔ دوسرے دن سوچا کہ کچھ بڑی سورتیں لکھتی ہوں۔ مگر تیسرے دن خود ہی میرے دل میں خیال آیا کہ نہیں، پورا قرآن پاک ہی لکھتی ہوں۔ مجھے لگا کہ یہ حتمی فیصلہ ہے۔ جب یہ فیصلہ کرلیا تو اب کپڑے کے تھان خریدنے تھے۔ میں اس بات کا کسی سے ذکر نہیں کرنا چاہتی تھی۔ ان دنوں ہم میاں بیوی اپنے مکان کی بات کیا کرتے تھے۔ مجھے اس وقت کچھ لوگوں نے کہہ رکھا تھا کہ جب مکان بنانے چلو تو اکثر چھت وغیرہ ڈال دی جاتی ہے، مگر کھڑکیاں دروازے بنانے مشکل ہو جاتے ہیں۔ یہی سوچ کر میں نے بچت کرنا شروع کر دی تھی اور گتا کاٹ کر ایک گلّہ بنا لیا تھا۔ جس میں، میں کچھ پیسے ڈالتی رہتی تھی۔ تھان خریدنے کیلئے اس گلّے کو توڑا۔ اس وقت میرے شوہر پاکستان ایئر فورس میں ملازمت کرتے تھے۔ ہم ایئر فورس کی کالونی گوجرانوالہ میں رہائش پذیر تھے۔ میں مقامی مارکیٹ میں گئی اور دکاندار سے کپڑا دکھانے کو کہا۔ اس نے کچھ کپڑا دکھایا، مگر مجھے اپنی ضرورت کے مطابق نہیں مل رہا تھا۔ آخر کار ایک کپڑا مل گیا۔ لیکن وہ دکاندار کے پاس کم تھا۔ جبکہ میں نے حساب لگا لیا تھا کہ مجھے تو کم از کم بارہ تھان کپڑا چاہیے۔ دکان دار سے میں نے کہا کہ مجھے بارہ تھان چاہئیں۔ اس نے ریٹ لگایا۔ حساب کتاب کیا اور مجھ سے کہا کہ میں کپڑا دوسرے دن لے جائوں۔ دوسرے دن میں پیسے ساتھ لے کر گئی تھی۔ اس زمانے میں بارہ تھانوں کی قیمت تقریباً سات ہزار روپے بنی تھی۔ کوئی یقین کرے یا نہ کرے۔ یہ اتنی ہی رقم تھی جو گلّے میں سے نکلی تھی۔ اس میں نہ تو ایک روپیہ کم تھا اور نہ ہی ایک روپیہ زیادہ۔ دکاندار مجھے جانتا تھا اور بار بار پوچھ رہا تھا کہ مجھے اتنا کپڑا کیوں چاہیے؟ مگر میں بتانا نہیں چاہتی تھی۔ اس موقع پر اس نے مجھے دو سو روپے کی رعایت دینا چاہی۔ مگر میں تو قدرت کے نظام پر حیران اور خوش تھی کہ جتنی رقم گلّے میں سے نکلی، اتنی ہی رقم کا بِل بنا تھا، پھر میں کیسے رعایت لے سکتی تھی؟ میں نے وہ رعایت قبول نہیں کی اور گھر چلی آئی۔ جب گھر میں کپڑا لے کر آئی تو اس وقت شوہر اور بچوں کو بتایا کہ اب میں کیا کرنے جا رہی ہوں۔ اس پر شوہر نے اجازت دے دی۔ جبکہ بچے تو چھوٹے تھے۔ یہاں سے میں نے قرآن پاک سوئی دھاگے سے تحریرکرنا شروع کردیا‘‘۔
نسیم اختر کا کہنا تھا کہ ’’میرا بچپن، جوانی، شادی اور اب بڑھاپا سب کچھ بہت سادہ اندازہ میں صبر و شکر کے ساتھ گزر رہا ہے۔ میری خوش قسمتی ہے کہ بچپن سے لے کر آج تک مجھے بہت اچھے لوگ ملے ہیں۔ جنہوں نے میرے ساتھ نیکیاں کی ہیں۔ میرا تعلق بھی ایک سادہ سے خاندان سے ہے۔ بچپن میں، میں اپنے گھر کے قریب ہی رہائش پذیر عالم دین مولانا اسلم جالندھری کے گھر پر قرآن پاک پڑھنے جایا کرتی تھی۔ ان کا ایک بیٹا محکمہ تعلیم سے 22 ویں گریڈ میں ریٹائر ہوا ہے۔ جبکہ ایک بیٹی استاد تھی اور دوسری بیٹی سلائی کڑھائی کی ماہر تھی۔ میں جب ان کے گھر جاتی تھی تو ان کی بیٹی جو سلائی کڑھائی میں ماہر تھی، قرآن پڑھنے کے بعد مجھے بھی گھر کے کام کاج اور کھانا پکانا سکھایا کرتی تھی۔ اور ساتھ ہی ساتھ میں وہ مجھے سلائی کڑھائی کی بھی تربیت دیتی رہی۔ میں یہ سب کام بہت شوق سے سیکھ رہی تھی۔ ان دنوں میری بہت زیادہ خواہش تھی کہ میں خود اپنی والدہ کے کپڑے سی سکوں۔ اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ دس سال کی عمر میں، میں نے اپنی والدہ کے کپڑے سی کر ان کو دیئے۔ میں وہ خوشی الفاظ میں بیان نہیں کر سکتی۔ اس وقت تک میں گھر کے تمام کاموں میں ماہر ہو چکی تھی اور وہ کام سنبھال بھی لئے تھے۔ دس سال ہی کی عمر میں قرآن پاک ختم کرلیا تھا۔ مگر مولانا اسلم جالندھری صاحب کے گھر آنا جانا ختم نہیں ہوا تھا۔ ان دنوں مولانا اسلم جالندھری صاحب قرآن پاک کا پنجابی میں ترجمہ کر رہے تھے۔ ایک روز میں ان کے پاس بیٹھی تھی کہ دیکھا کہ وہ ترجمہ لکھ رہے ہیں۔ وہ آج کا زمانہ نہیں تھا۔ اس وقت چھپائی کیلئے پلیٹیں بنتی تھیں۔ میں نے مولانا صاحب سے کہا کہ میں بھی آپ کی مدد کرنا چاہتی ہوں۔ انہوں نے کہا کہ کیا مدد کروگی؟ میں نے کہا کہ میں عربی کاغذ پر لکھ سکتی ہوں۔ انہوں نے کہا کہ لکھو۔ میں نے کچھ لکھا تو بہت خوش ہوئے۔ اور کہا کہ اب روز یہ کام کر کے دیا کرو۔ اس وقت تک وہ سولہ سپاروں پر کام کر چکے تھے۔ پھر میں نے خوشی خوشی ان کی مدد کی۔ اس طرح مجھے عربی لکھنا بہت اچھے طریقے سے آگیا تھا۔ مولانا اسلم جالندھری اپنے ترجمے کیلئے مولانا مودودیؒ کے اردو ترجمے کا مطالعہ کیا کرتے تھے۔ ان حالات کے اندر میں میٹرک تک پہنچ گئی تھی۔ میٹرک تک پہنچتے پہنچتے میں گھر داری میں مکمل تربیت یافتہ تھی۔ ہر وہ کام جس کی اس زمانے میں ایک سگھڑ خاتون سے توقع کی جاسکتی تھی، میٹرک میں پہنچنے تک میں کر سکتی تھی۔ میں اپنے گھر میں شوق سے سب کام کرتی تھی۔ میٹرک میں میرا رشتہ آیا۔ غلام مصطفیٰ پاکستان ایئر فورس میں ملازم تھے۔ جلد ہی ہماری شادی ہوگئی۔ جس کی وجہ سے میری تعلیم کا سلسلہ ٹوٹ گیا۔ شادی کر کے میں گاؤں آگئی تھی۔ مگر جب غلام مصطفی صاحب کا تبادلہ ہوتا تو میں ان کے ہمراہ ہوتی۔ سلائی کڑھائی میں تو ماہر تھی ہی، اس ہنر کا استعمال کرتے ہوئے میں نے پاکستان ایئر فورس کے سلائی کڑھائی مراکز میں ملازمت اختیار کرلی تھی اور بچیوں کو تربیت دینا شروع کر دی تھی‘‘۔ (جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment