اب یہ دونوں (ابن ساباط اور اجنبی) شہر کے کنارے ایک حصہ میں پہنچ گئے، جو بہت ہی کم آباد تھا۔ یہاں ایک ناتمام عمارت کا پرانا اور شکستہ احاطہ تھا۔ ابن ساباط اس احاطے کی جانب پہنچ کر رک گیا اور اجنبی نے باہر سے دونوں گٹھڑیاں اندر پھینک دیں۔ اس کے بعد اجنبی بھی کود کر اندر ہو گیا۔ عمارت کے نیچے ایک پرانا سرداب (تہہ خانہ) تھا، جس میں ابن ساباط نے قید خانے سے نکل کر پناہ لی تھی، لیکن اس وقت وہ سرداب میں نہیں اترا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس اجنبی پر ابھی اس درجہ کا اعتماد کرے کہ اسے اپنا اصل مقام محفوظ دکھلا دے۔
جس جگہ یہ دونوں کھڑے تھے، دراصل وہ ایک ناتمام ایوان تھا۔ یا تو اس پر پوری چھت ہی نہ پڑی تھی یا پڑی تھی تو امتداد وقت سے شکستہ ہو کر گر پڑی تھی۔ ایک طرف بہت سے پتھروں کا ڈھیر تھا۔ ابن ساباط انہی پتھروں میں سے ایک پر بیٹھ گیا۔ دونوں گٹھڑیاں سامنے دھری تھیں۔ ایک گوشے میں اجنبی کھڑا ہانپ رہا تھا۔ کچھ دیر تک خاموشی رہی۔
یکایک اجنبی بڑھا اور ابن ساباط کے سامنے آکر کھڑا ہو گیا، اب رات ختم ہونے کو تھی، پچھلے پہر کا چاند درخشاں تھا، کھلی چھت سے اس کی شعاعیں ایوان کے اندر پہنچ رہی تھیں۔ ابن ساباط دیوار کے سائے میں تھا، لیکن اجنبی جو اس کے سامنے آکر کھڑا ہو گیا تھا، ٹھیک چاند کے مقابل تھا۔ اس لئے اس کا چہرہ صاف دکھائی دے رہا تھا۔
ابن ساباط کو تاریکی میں ایک درخشاں، ایک نورانی تبسم نے ایک ایسے عالم کی جھلک دکھا دی، جو اب تک اس کی نگاہوں سے پوشیدہ تھی، اس کی ساری زندگی گناہ اور سیہ کاری میں بسر ہوئی تھی، اس نے انسانوں کی نسبت جو کچھ دیکھا، سنا تھا، وہ یہی تھا کہ انسان خود غرضی کا پتلا اور نفس پرستی کی مخلوق ہے۔ وہ نفرت سے منہ پھیر لیتا ہے۔ بے رحمی سے ٹھکرا دیتا ہے۔ سخت سے سخت سزائیں دیتا ہے، لیکن وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ وہ محبت بھی کرتا ہے اور اس میں فیاضی، بخشش اور قربانی کی روح ہو سکتی ہے۔ بچپن میں اس نے بھی خدا کا نام سنا تھا اور خدا پرستی کرتے دیکھا تھا، لیکن جب زندگی کی کشائش کا میدان سامنے کھلا تو اس کا عالم ہی دوسرا تھا، اس نے قدم اٹھایا اور حالات کی رفتار جس طرف لے گئی، بڑھ گیا۔
نہ تو خود اسے کبھی مہلت ملی کہ خدا پرستی کی طرف متوجہ ہوتا اور نہ انسانوں نے کبھی اس کی ضرورت محسوس کی کہ اسے خدا سے آشنا کرتے۔ جوں جوں اس کی شقاوت بڑھتی گئی۔ سوسائٹی نے اپنی سزا بھی بڑھا دی۔ سوسائٹی کے پاس اس کی شقاوت کے لئے بے رحمی تھی۔ اس لئے یہ بھی دنیا کی ساری چیزوں میں سے بے رحمی کا خوگر ہو گیا۔
لیکن اب اچانک اس کے سامنے سے پردہ ہٹ گیا۔ آسمان کے سورج کی طرح محبت کا بھی ایک سورج ہوتا ہے۔ یہ چمکتا ہے تو روح اور دل کی ساری تاریکیاں دور ہو جاتی ہیں۔ اب یکایک اس سورج کی پہلی کرن ابن ساباط کے دل کے تاریک گوشہ پر پڑی اور وہ ایک گہری تاریکی سے نکل کر روشنی میں آگیا۔ اجنبی کی شخصیت اپنی پہلی ہی نظر میں اس کے دل تک پہنچ چکی تھی، لیکن وہ جہالت و گمراہی سے اس کا مقابلہ کرتا رہا اور حقیقت کے فہم کے لیے تیار نہیں ہوا، لیکن جونہی اجنبی کے آخری الفاظ نے وہ پردہ ہٹا دیا، جو اس نے اپنی آنکھوں پر ڈال لیا تھا، حقیقت اپنی پوری شان تاثیر کے ساتھ بے نقاب ہو گئی اور اب اس کی طاقت سے باہر تھا کہ اس کے تیز زخم سے سینہ بچا لے جاتا۔
اس نے اپنی جہالت سے پہلے خیال کیا تھا ، اجنبی بھی میری ہی طرح کا ایک چور ہے اور اپنا حصہ لینے کے لیے میری رفاقت و اعانت کر رہا ہے۔ اس کا ذہن یہ تصور ہی نہیں کر سکتا تھا کہ بغیر غرض اور فائدہ کے ایک انسان دوسرے کے ساتھ اچھا سلوک کر سکتا ہے، لیکن جب اجنبی نے چلتے وقت بتلایا کہ وہ چور نہیں، بلکہ اسی مکان کا مالک ہے، جس کا مال و متاع غارت کرنے کے لئے وہ گیا تھا تو اسے ایسا محسوس ہوا جیسے یکایک ایک بجلی آسمان سے گر پڑی ہے۔
’’وہ چور نہیں تھا۔ مکان کا مالک تھا، لیکن اس نے چور کو پکڑنے اور سزا دینے کی جگہ اس کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ یہ اس نے کیا سلوک کیا‘‘ اس کا اپنا جواب اس کی روح کے لیے ناسور اور اس کے دل کے لیے ایک دہکتا ہوا انگارا تھا ، وہ جس قدر سوچتا ، روح کا زخم گہرا ہوتا جاتا او ردل کی تپش بڑھتی جاتی۔ اس تمام عرصہ میں اجنبی کے ساتھ جو کچھ گزرا تھا اس کا ایک ایک واقعہ، ایک ایک حرف یاد کرتا اور ہر بات کی یاد کے ساتھ ایک تازہ زخم کی چبھن محسوس کرتا۔ پراسرار انداز نگاہ کی دل آویزی سامنے ہے۔ میرے دوست اور رفیق! اجنبی نے اپنی اسی دلنواز اور شیریں آواز میں جو دو گھنٹے پہلے ابن ساباط کو بے خود کر چکی تھی، کہنا شروع کیا:
’’میں نے اپنی خدمت پوری کر لی ہے۔ اب میں تم سے رخصت ہوتا ہوں۔ اس کام کے کرنے میں مجھ سے جو کمزوری اور سستی ظاہر ہوئی ہے اور اس کی وجہ سے بار بار تمہیں پریشان خاطر ہونا پڑا ، اس کے لئے میں بہت شرمندہ ہوں اور تم سے معافی چاہتا ہوں، مجھے امید ہے کہ تم معاف کردو گے…‘‘ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭