حضرت عامرؒ سے تحقیق و تفتیش کے بعد والیٔ بصرہ نے رپورٹ امیر المؤمنین سیدنا عثمانؓ کے پاس بھیج دی، حضرت عثمان بن عفانؓ کو اس میں نہ تو کوئی بغاوت نظر آئی اور نہ ہی اہل سنت و الجماعت سے کنارہ کشی۔ لیکن جب اس کے باوجود بھی شرارت کی آگ نہ بجھ سکی اور حضرت عامرؒ کے بارے حاسدین کی جانب سے میں بہت زیادہ چہ میگوئیاں (مخالف باتیں) ہونے لگیں اور قریب تھا کہ ان کے موافقین اور مخالفین کے درمیان جنگ اور دشمنی کا فتنہ پیدا ہوجائے، تو حضرت عثمان بن عفانؓ نے ان کو شام کی طرف جانے اور علاقہ شام ہی کو اپنا ٹھکانہ بنانے کا حکم صادر فرما دیا۔
امیر المومنینؓ نے ساتھ ساتھ والی شام حضرت معاویہ بن ابی سفیانؓ کو بھی پیغام بھیجا کہ جب عامرؓ شام پہنچیں تو ان کا زبردست استقبال کیا جائے اور ان کے مقام اور مرتبے کے مطابق ان کا لحاظ رکھا جائے۔
پھر جس دن حضرت عامرؒ بصرہ کو چھوڑ کر جانے لگے تو اس دن ان کے دوستوں شاگردوں اور تعلق داروں کی ایک بہت بڑی تعداد ان کو رخصت کرنے کے لیے جمع ہوگئی اور وہ الوداع کہنے کے لیے کافی دور مقام ’’مربد‘‘ تک ساتھ چلتے رہے، وہاں پہنچ کر عامرؒ نے ان لوگوں سے فرمایا:
’’میں دعا مانگتا ہوں اور آپ لوگ میری دعا پر آمین کہتے جائیں!‘‘
اس وقت وہ سب لوگ ان کو دیکھنے لگے اور سب نے خاموش ہوکر سکون کے ساتھ اپنی نگاہیں ان پر جمالیں، پھر انہوں نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور یوں دعا کرنے لگے:
ترجمہ: ’’اے میرے پرودگار! جن لوگوں نے بھی میری غیبت کی اور مجھ پر جھوٹے الزامات لگائے اور مجھے میرے شہر سے نکالنے کا اور اپنے دوستوں ساتھیوں سے جدا کرنے کا سبب بنے، خدایا! میں نے ان سب کو معاف کردیا ہے، تو بھی ان کو معاف فرمادے اور دین و دنیا دونوں میں ان کے ساتھ عافیت کا معاملہ فرما اور اے ارحم الراحمین مجھے اور ان کو اور تمام مسلمانوں کو اپنی رحمت، بخشش اور احسان میں ڈھانپ لے۔‘‘
اس دعا سے فارغ ہوکر انہوں نے اپنی سواری کا رخ شام کی طرف موڑ دیا اور چل دیئے۔
انتقال کے وقت رونا:
حضرت عامرؒ نے اپنی بقیہ زندگی شام میں گزاری، انہوں نے بیت المقدس کو اپنا ٹھکانہ بنایا اور امیر شام حضرت معاویہ بن ابی سفیانؓ کی صحبت میں رہ کر ان کی نیکی، بزرگی اور احترام سے انہوں نے بہت کچھ سیکھا۔
جب وہ مرض الموت میں متبلا تھے تو ان کے کچھ ساتھی ان کے پاس آئے اور ان کو روتا ہوا دیکھ کر پوچھنے لگے: آپ کیوں روتے ہیں؟ آپ تو اس قدر نیک صالح اور متقی و پرہیزگار ہیں، حق تعالیٰ ضرور آپ کے ساتھ بھلائی کا معاملہ فرمائیں گے، تو انہوں نے کہا:
ترجمہ: ’’خدا کی قسم! میں اس لئے نہیں روتا کہ مجھ سے دنیا رہ جائے گی یا موت کا ڈر ہے، بلکہ میں تو اس لئے رو رہا ہوں کہ میرا اگلا سفر کافی لمبا ہے اور میرے پاس توشہ بہت کم ہے اور میری مثال تو اس شخص کی سی ہے جو بلندی اور گھاٹی کے درمیان پھنس جائے۔
میں بھی اس طرح جنت اور جہنم کے درمیان پھنسا ہوا ہوں اور مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ ان دونوں میں سے کس کی طرف جاؤں گا۔‘‘
اس کے بعد ان کی روح نکل گئی، اس وقت بھی ان کی زبان حق تعالیٰ کے ذکر سے تر تھی اور ان کا انتقال قبلۂ اول، حرم ثالث اور رسول اقدسؐ کے مقام معراج (یعنی بیت المقدس) میں ہوا اور وہیں دفن کئے گئے۔
حق تعالیٰ ان کی قبر کو نور سے بھر دے اور جنت کے دائمی باغات میں ان کو ہمیشہ ہمیشہ کی تازگی نصیب فرمائے۔ آمین۔
حضرت عامر تمیمیؒ کے حالات پر غور کرنے کے بعد مندرجہ ذیل باتیں معلوم ہوئیں: جب آدمی علماء اور اچھے لوگوں کی صحبت اختیار کرے گا تو اس کے اندر بھی اچھے لوگوں والی صفات پیدا ہوں گی اور علم کا وافر حصہ نصیب ہوگا جیسے عامرؒ کو حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کی صحبت سے ملا۔ ہر انسان کو اپنے اوقات کی حفاظت کرنی چاہئے۔ فضول اور لایعنی کاموں کیلئے ان کے پاس وقت نہیں ہونا چاہئے، بلکہ ذکر و عبادت، تعلیم و تعلم، تبلیغ اور جہاد میں مشغول ہوکر اپنے اوقات قیمتی بنانے چاہئیں۔ عبادت میں بھر پور کوشش کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے رب سے عافیت اور استقامت کی دعا ضرور کرنی چاہئے اور جن چیزوں سے گمراہ ہونے کا خطرہ ہو اپنے رب کی ان چیزوں سے پناہ مانگ لینی چاہئے۔مظلوم کی مدد کرنی چاہئے، لیکن معاملے کو سمجھ کر اور پھر مظلوم کی مدد کی وجہ سے کسی بھی مصیبت یا پریشانی کا سامنا ہوجائے تو اس پر صبر کرنا چاہئے۔ قصور وار کا قصور معاف کردینا چاہئے، اگر خدانہ کرے ہم کو کسی نے ستایا ہو یا تکلیف پہنچائی ہو تو معاف کردینا چاہئے، جیسے حضرت عامرؒ کو جن لوگوں نے اتنا ستایا تھا کہ ان کو اپنے وطن سے بھی نکلنا پڑا لیکن اس کے باوجود بھی ان لوگوں کو معاف کردیا۔ اگر ہم سے بھی کسی کو تکلیف پہنچی ہو تو اس سے معاف کروالینا چاہئے اور اگر معاف نہ کراسکیں یا وہ زندہ نہ ہوتو اس کیلئے ایصال ثواب کرتے رہنا چاہئے۔ اگر اس کا کوئی مالی حق ہو تو ضرور ادا کردینا چاہئے، ادا نہ کرسکیں تو اپنی وصیت میں لکھ لیں کہ اگر میری اولاد کو رب تعالیٰ استطاعت دیں تو فلاں کا مجھ پر قرضہ ہے فلاں کا میرے اوپر یہ حق ہے چنانچہ اس کا یہ حق ادا کریں۔ مظلوم کی آہ سے بچنا چاہئے، مسلمانوں کی حکومت کے زوال کے اسباب میں سے ایک سبب یہ بھی تھا کہ بعض مسلمانوں کی طرف سے کم زور اور بے بس، بے کس لوگوں پر ظلم ہوا جیسا کہ اس سرکاری محافظ نے ایک کافر پر ظلم کیا۔ظلم سے بچنے کیلئے دعا کا اہتمام کرنا چاہئے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭