اس لڑکے کا کیا بنے گا

مولانا پیر ذوالفقاراحمد نقشبندی نے ایک واقعہ سنایا کہ 1994ء میں سمرقند جانے کا موقع ملا تو جامع مسجد سمرقند میں خطبہ جمعہ دیا۔ نماز جمعہ کے بعد چند نوجوان میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ حضرت! آپ ہمارے گھر میں تشریف لے چلیں۔ ہماری والدہ آپ سے ملنا چاہتی ہیں۔ میں نے معذرت کر دی کہ اتنے لوگ یہاں موجود ہیں، میں ان کو چھوڑکر وہاں کیسے جاؤں۔
مفتی اعظم سمرقند میرے ساتھ ہی کھڑے تھے۔ وہ کہنے لگے حضرت! آپ ان کو انکار نہ کریں، میں بھی آپ کے ساتھ چلوں گا، ان کے ہاں جانا ضروری ہے۔ میں نے کہا کہ بہت اچھا۔ چنانچہ ہم دوستوں سے ملاقات کر کے چل پڑے۔
راستے میں مفتی اعظم صاحب بتانے لگے کہ ان نوجوان لڑکوں کی والدہ ایک مجاہدہ اور پکی مومنہ ہے۔ جب کمیونزم کا انقلاب آیا تو اس وقت وہ بیس سال کی نوجوان لڑکی تھی۔ اس کے بعد ستر سال گزر چکے ہیں۔ اس طرح اس کی عمر نوے سال ہو چکی ہے۔ حق تعالیٰ نے کمیونزم کے دور میں اتنا مضبوط ایمان دیا تھا کہ ادھر دہریت کا سیلاب آیا اور ادھر یہ نوجوان لڑکیوں کو دین پر جمے رہنے کی تبلیغ کرتھی تھی۔
ان سے گھنٹوں بحث کرتی اور ان کو کلمہ پڑھا کر ایمان پہ لے آتی۔ ہم پریشان ہوتے کہ اس نوجوان لڑکی کی جان بھی خطرے میں ہے اور یہ دہریے قسم کے فوجی اس کی عزت خراب کر دیں گے اور اسے سولی پر لٹکا دیں گے۔ لہٰذا ہم اسے سمجھاتے۔ بیٹی تو جوان العمر ہے، تیری عزت و آبرو اور جان کا معاملہ ہے۔ اتنا کھل کر لوگوں کو اسلام کی تبلیغ نہ کیا کر۔
مگر وہ کہتی کہ میری عزت و آبرو اور جان اسلام سے زیادہ قیمتی نہیں ہے۔ میری جان خدا تعالیٰ کے راستے میں قبول ہو گئی تو کیا فرق پڑ جائے گا۔ لہٰذا یہ عورتوں کو کھلے عام تبلیغ کرتی رہتی، حتیٰ کہ سینکڑوں کی تعداد میں عورتیں دہریت سے توبہ کر کے دوبارہ مسلمان ہو گئیں۔ ہمیں اس کا ہر وقت خطرہ رہتا تھا۔ سب علماء اس بچی کے بارے میں پریشان تھے کہ پتہ نہیں اس لڑکی کا کیا بنے گا؟ پتہ نہیں کون سا دن ہو گا جب اسے سولی پر چڑھا دیا جائے گا اور اس کو سارے لوگوں کے سامنے بے لباس کر کے ذلیل و رسوا کر دیا جائے گا۔
مگر یہ نہ گھبراتی۔ یہ ان کو دین کی تبلیغ کرتی رہتی، حتیٰ کہ اس نے ستر سال تک دین کی تبلیغ کی اور یہ ہزاروں عورتوں کے ایمان لانے کا سبب بن گئی۔ اب وہ بیمار ہے، بوڑھی ہے اور چارپائی پر لیٹی ہوئی ہے۔ اس عورت کو آپ کے بارے میں کسی نے بتایا کہ پاکستان سے ایک عالم آئے ہیں۔ اس کا جی چاہا کہ وہ آپ سے گفتگو کر لے۔ اس لئے میں نے کہا کہ آپ انکار نہ کریں۔
اس عاجز (پیر ذوالفقار صاحب) نے جب یہ سنا تو دل میں بہت خوش ہوا کہ جب وہ ایسی خدا کی نیک بندی ہے تو ہم بھی ان سے دعا کروائیں۔ جب ہم ان کے گھر پہنچے تو دیکھا کہ صحن میں ان کی چارپائی پڑی ہوئی تھی اور وہ اس پر لیٹی ہوئی تھیں۔ لڑکوں نے ان کے اوپر ایک پتلی سی چادر
ڈال دی۔ ہم چارپائی سے تقریباً ایک میٹر دور جا کر کھڑے ہو گئے۔ اس عاجز نے جاتے ہی سلام کیا۔ سلام کرنے کے بعد میں نے عرض کیا کہ اماں! ہمارے لئے دعا مانگئے۔ ہم آپ کی دعائیں لینے کیلئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں۔
جب میں نے عرض کیا تو انہوں نے چادر کے اندر ہی اپنے ہاتھ اٹھائے اور بوڑھی آواز میں سب سے پہلے یہ دعا مانگی: ’’خدایا! ایمان سلامت رکھنا۔‘‘ یقین کیجئے کہ ہماری آنکھوں سے آنسو آ گئے۔
اس دن احساس ہوا کہ ایمان کتنی بڑی نعمت ہے کہ ستر سال تک ایمان پر محنت کرنے والی خاتون اب بھی جب دعا مانگتی ہے تو پہلی بات کہتی ہے خدایا ایمان سلامت رکھنا۔
(خطبات فقیر)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment