احمد خلیل جازم
حضرت یوشع بن نون کے مزار پر زائرین اپنی اپنی مرادیں مانگتے ہیں۔ عبدالعزیز کا بتانا تھا کہ ’’یہاں پر زیادہ تر بے اولاد جوڑے اولاد نرینہ کے لیے آتے ہیں اور اللہ پاک ان کی مراد پوری کرتا ہے۔ یہاں بعض اوقات بہت انوکھے واقعات بھی دیکھنے کو ملتے رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ پیغمبروں اور انبیاء کے درباروں پر ہر قسم کی مخلوق آتی ہے۔ ہم نے تو نہیں دیکھا لیکن ہمارے بزرگوں کا کہنا تھا کہ یہاں ایک بزرگ رات کے اوقات میں آتے تھے۔ ان کا مزار یہاں سے کچھ کوس کے فاصلے پر ہے۔ وہ بزرگ کبھی اپنی اصل شکل میں نہیں آتے، بلکہ سانپ کی شکل میں حاضری دیتے ہیں‘‘۔ ہم نے ان بزرگوں کا نام پوچھا تو عبدالعزیز کا کہنا تھا ’’ان بزرگوں کا نام تو معلوم نہیں ہے، لیکن انہیں پیر برنا کہتے ہیں، کیونکہ ان کے مزار کے اردگرد ایک درخت کثرت سے پایا جاتا ہے، جسے مقامی زبان میں برنا کہا جاتا ہے۔ گائوں کے اکثر بزرگوں کا کہنا تھا کہ صبح سویرے ایک بڑے اژدھے کے زمین پر چلنے کا نشان دکھائی دیتا تھا، تو انہیں اندازہ ہوتا تھا کہ رات کو یہاں پر حاضری ہوئی ہے۔ چنانچہ لوگوں نے وہاں پر ایک بڑا ٹب رکھ دیا، تاکہ یہ سانپ رات کو آکر دودھ پئے۔ ہوتا یہ کہ رات کو ٹب دودھ سے بھر کر رکھ دیا جاتا، تو صبح یہ ٹب خالی ملتا تھا۔ اب یہ رسم اس دربار پر تو ادا نہیںہوتی، لیکن پیر برنا کے دربار پر اب بھی خواتین کبھی کبھار دودھ رکھ آتی ہیں۔ اس دربار میں بھی صاحب مزار نو گز لمبی قبر میں محو استراحت ہیں۔ بعض لوگ انہیں نبی مانتے ہیں اور بعض انہیں سانپوں کا پیر کہتے ہیں۔ حقیقت کیا ہے، یہ خدا ہی جانتا ہے۔ لیکن یہ مزار جو کہ حضرت یوشع بن نونؑ کا ہے، یہاں لوگوں کو فیض حاصل ہوتا ہے اور یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ اس ٹبے پر ہمارے بزرگوں نے اس قبر کو دیکھا ہوا تھا۔ یہ پہلے کچی قبر تھی، جس پر پتھر رکھے ہوئے تھے، لیکن اس کی لمبائی نو فٹ ہی تھی۔ بعد ازاں جب نصیب علی شاہ صاحب نے یہاں قیام اور عبادات کا سلسلہ شروع کیا تو اس وقت لوگوںکو اس قبر کی اہمیت کا اندازہ ہوا۔ انہوں نے کسی کو کچھ نہ بتایا، لیکن اپنے ایک مرید کو یہاں چھوڑ گئے تھے۔ حضرت یوشع بن نون کا ذکر حضرت شمس الدین آف گلیانہ نے بھی اپنی کتاب میںکیا ہے‘‘۔
حضرت یوشع بن نون کے حوالے سے دیگر تین ممالک میں قبر کی موجودگی اور پھر گجرات کے اس چھوٹے سے قصبے میں موجودگی بہت سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ اس حوالے سے مختلف لوگوں کی آرا پڑھنے کو بھی ملتی رہی ہیں، جو گجرات کو تاریخی علاقہ ثابت کرچکے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود اس قدر بزرگزیدہ ہستیوں کی یہاں آمد کے سلسلے کا اندازہ نہیں ہو پارہا تھا۔ حضرت یوشع کے مزار پر دلی سکون تو ملتا ہے، لیکن ایک پھانس بھی چبھی رہی کہ کیا وجہ ہے کہ آپ کے مزار دیگر ممالک میں بھی ہیں۔ اس پر شاہ زین جو کہ نو گزی قبور پر تحقیق کررہے ہیں، انہوں نے یہ پھانس نکالی ۔ ان کا کہنا تھا ’’سوال یہ نہیں ہے کہ دنیا بھر میں موجود قبروں میں سے اصل قبر کون سی ہے۔ سچ جاننے کی جستجو ہی آپ کو اور مجھے یہاں تک لے کر آئی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ اس خطے میںکیوں اور کب آئے۔ ان انبیاء کی قبور سو دو سو برس پہلے کی نہیں ہیں، بلکہ ہزاروں برس پہلے کی ہیں۔ انہیں زیادہ تر کشف القبور کے توسط سے ظاہر کیا گیا اور یہ کام حافظ شمس الدین نے کیا۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ کشف القبور تین طرح سے ہوتا ہے۔ ایک ہے کشف القبور، جس کے حافظ شمس الدین ماہر تھے۔ ایک ہوتا ہے کشف الصدور، یعنی سینہ کھول کے علم حاصل کرنا، جس کے ماہر حضرت سلطان باہوؒ تھے۔ اور ایک ہوتا ہے کشف الحضور، جس کا مطلب ہے کہ آپ کسی بھی شخص کو حاضر کر سکتے ہیں۔ اپنے زمانے میں کشف القبور کے ماہر حافظ شمس الدین تھے۔ حضرت سلطان باہو بھی کشف القبورکے ماہر تھے، لیکن انہوں نے کشف الصدور پر زیادہ کام کیا۔ حافظ صاحب نے یہ علم گھر بیٹھ کر حاصل نہیں کیا، بلکہ صاحب مزار کی قبر پر جاتے، کچھ دن رک کر عبادت کرتے اور وہاں قبر میں موجود ہستی سے صرف ان کا نام ہی پوچھا کرتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے سب کے نام پوچھ کر لکھ دئیے تھے۔ حضرت یوشع بن نون اکیلے بنی اسرائیل سے اٹھ کر نہیں آئے تھے۔ 172 کے قریب مزار ہیں، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ سب نبی ہیں۔ تو اس کا مطلب ہے کہ پوری فوج کے ساتھ یہ ہستیاں آئی تھیں۔ حضرت یوشع بن نون، حضرت موسیٰ کے بھانجے بھی تھے۔ آپ حضرت مریم بنت عمران کے بیٹے تھے، جو کہ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارونؑ کی بہن تھیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کون سے زمانے میں یہ ہستیاں یہاں آئیں اور کیوں آئیں۔ اس حوالے سے آپ تحقیق کریں تو آپ کو ’گریٹر خراسان‘ کا نقشہ مل جائے گا، جو کہ حضرت سلیمانؑ کے زمانے میں ایک ملک تھا، جس کے وہ بادشاہ تھے۔ آپ حضرت دائودؑ کے بیٹے تھے۔ نبی بھی تھے اور بادشاہ بھی تھے۔ اس وقت ایران بھی گریٹر خراسان کی ایک ریاست تھی۔ جیسے آج امریکہ کی ریاستیں ہیں۔ یا گریٹ برٹن، یعنی عظیم برطانیہ پڑھتے ہیں۔ اسی طرح اس وقت گریٹر خراسان تھا۔ جس میں ایران، ازبکستان، افغانستان، ترکمانستان اور تاجکستان شامل تھے۔ یہ 1185 سال قبل مسیح سے زیادہ کا زمانہ بنتا ہے۔ اس وقت گریٹر خراسان اور ہندوستان کے درمیان ایک جنگ ہوئی تھی، جو جنگ ہندوستان کہلاتی تھی۔ اس وقت ہندوستان بھی ہند کہلاتا تھا، جس میں موجودہ سری لنکا، بھوٹان، نیپال اور پاکستان وغیرہ سب شامل تھے۔ اس وقت دریائے توی اور چناب کے ملاپ کا علاقہ (مقبوضہ کشمیر) اور اس کا فطری بہائو ہی ہند اور گریٹر خراسان کا بارڈر تھا۔ اس وقت بنی اسرائیل کی حکومت جو کہ گریٹر خراسان پرتھی، وہ پھیلتی جارہی تھی۔ ہند اور گریٹر خراسان کے درمیان بھوٹان کے علاقے سکم کے لیے جنگ ہوئی تھی اور اسی زمانے میں یہ تمام لوگ اس علاقے میں آتے رہے۔ زیادہ تر تو جنگوں میں شہید ہوتے رہے، اور کچھ کا وصال یہیں پر ہوا۔ اس وقت یہ دریائے چناب کا بارڈر دائیں اور بائیں جانب بنتا تھا۔ کچھ بائیں اور کچھ دائیں دفن ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ ان تمام (جن میں کچھ انبیاء اور زیادہ تر ان کی اولادوں) کے مزارات آپ کو مناور (مقبوضہ کشمیر) سے لے کر ملتان تک ملتے ہیں۔ کیونکہ اس وقت دریائے چناب کا قدرتی بہائو یہی تھا۔ جیسے حضرت یوشع بن نون تو بنی تھے، جو یہاں تشریف لائے۔ اسی طرح آپ کے بیٹے کا مزار بھی اسی علاقے میں ہے، جن کا نام حضرت طانوخ ہے، لیکن وہ نبی نہیں تھے‘‘۔
یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ ان تمام کا زمانہ الگ الگ تھا، پھر یہ اکٹھے کیسے یہاں آگئے۔ تو اس پر شاہ زین کا کہنا تھا کہ ’’یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ یہ سب انبیاء نہیں ہیں، بلکہ کچھ انبیاء ہیں اور زیادہ تر ان کی اولادیں ہیں۔ اب یہاں بات زمانے کی نہیں، بلکہ اہم بات یہ ہے کہ سب بنی اسرائیل تھے او ر وہاں سے اٹھ کر گریٹر خراسان میں آئے۔ ان کی تاریخ بعد میں رقم ہوئی ہے۔ اب یہ لوگ افغانستان سے ہوتے ہوئے یہاں آئے تھے۔ افغانستان چھوٹی سی ریاست تھی۔ اس کی ہسٹری مصر، یا بابل کو رکھنے کی ضرورت ہی نہ تھی، ہمیں اس لیے ضرورت تھی کہ ہمارے ورثے میں آگئے۔ آپ اس وقت خود کو بابل یا مصر یا فلسطین میں لے جائیں اور وہاں بیٹھے ہوں تو آپ کے لیے حضرت یوشع بن نون کا مزار کوئی حیثیت نہیں رکھے گا۔ وہ ایران یا افغانستان کی تاریخ نہیں رکھتے۔ وہ تو یوشع بن نون کے بارے یہی کہیں گے کہ وہ اس طرف تو کبھی گئے ہی نہیں تھے۔ یہیں ان کا ارتحال ہوا تھا۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ گریٹر خراسان اور ہندکے درمیان ہونے والی جنگ جو سکم کے لیے لڑی گئی تھی، اس میں یہ لوگ یہاںآئے تھے، اور پھر یہیں کچھ شہید ہوئے اور کچھ کا وصال ہوگیا۔ میرا آپ کو مشورہ ہے کہ آپ گریٹر خراسان کا نقشہ ضرور دیکھیے، جو کہ اس وقت انٹرنیٹ پر بھی موجود ہے۔ وہ نقشہ دیکھیں گے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ ان لوگوں کا یہاں آنا کیسے بنتا تھا۔ وہاں آپ زمانہ بھی پڑھ لیجیے، اور باڈر لائن بھی دیکھ لیں گے کہ افغانستان کی سرحد افغانستان کے ساتھ کہاں سے ملتی تھی‘‘۔
شاہ زین نے مزید بھی گفتگو کی، جس میں دیگر انبیاء اور ان کی اولادوں کا ذکر بھی ہوا۔ بعض دیگر انبیاء کے بارے میں بتایا جن پر ان کی تحقیق یہ ثابت کرتی تھی کہ وہ اس علاقے میں آئے اور یہیں مدفون ہوئے۔ ہم نے حضرت یوشع بن نون کے مزار سے رخصت لے کر پیر برنا کے مزار کا رخ کیا، تاکہ وہاں جاکر دیکھا جائے کہ آیا وہاں اب بھی سانپوں کے لیے دودھ کا برتن رکھا جاتا ہے۔ لیکن اس مزار پر ایسا کچھ نہ تھا، بلکہ یہ بالکل ویرانے میں تھا اور ایک بزرگ کے علاوہ کوئی ذی روح یہاں موجود نہ تھی۔ وہ بزرگ بھی یہاں سے گزرتے ہوئے دعا کرکے جارہے تھے۔ ان کا نام فضل کریم تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’صاحب مزار کا کوئی متولی نہیں ہے اور دیکھا جائے تو ہر کوئی متولی ہے۔ یہاں قصور سے ایک پیر نقیب اللہ آئے تھے، جنہوں نے یہاں تعمیرات کرائیں۔ صاحبِ مزار پر نئے شادی شدہ جوڑے، بہتر اور آسودہ زندگی کی منت مرادیں مانگتے ہیں اور وہ مزار پر کلاہ اور گھڑولیاں رکھ جاتے ہیں‘‘۔ صاحبِ مزار کے کتبے پر نام بھی کسی کا نہ تھا۔ صاحب مزار کا نام اور ان کا زمانہ طے نہ ہوسکا۔ بعض محققین نے اسے گھگا پیر کہا اور بعض نے پیر برنا۔ لیکن جو بھی تھا، وضاحت نہیں ہورہی تھی۔ البتہ حضرت یوشع بن نونؑ کے بارے میں کافی تفصیل مل چکی تھی۔ پیر برنا کی قبر پر فاتحہ خوانی کی اور بیرونی دروازے سے پائوں بچا کر نکلے کہ وہاں کافی مقدار میں دال پڑی ہوئی تھی، جس پر چیونٹیاں آئی ہوئی تھیں۔ یہ موٹی چیونٹیاں تھیں، جو حیران کن طورپر مزار کے اندرونی احاطے میں داخل نہیں ہو رہی تھیں، اگرچہ وہاں بھی دال کافی پڑی ہوئی تھی اور راستے بھی کھلے تھے۔ حضرت یوشع بن نونؑ اور پیر برنا کی قبور پر حاضری دینے کے بعد سوچ کے زاویے مختلف اطراف گھومتے رہے۔ ان قبور میں کون سی ہستیاں محو خواب ہیں، یہ اللہ جانتا ہے اور ہم آخر میں یہی کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیںکہ واللہ اعلم باالصواب!۔
٭٭٭٭٭