مولانا پیر ذوالفقار نقشبندی صاحب نے ایک تاریخی واقعہ بیان کیا ہے، وہ کہتے ہیں: حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ ایک بہت کامیاب باپ تھے۔ ان کے گیارہ بیٹے تھے۔ ان کی زندگی بہت غریب تھی کہ بچوں کی ضرورت بھی پوری نہیں ہو سکتی تھی، یہاں تک کہ ان کے بچوں کو کھانے پینے کی چیزیں پوری نہیں ملتی تھیں۔
ایک مرتبہ انہوں نے اپنی بیٹی کو بلایا، مگر اس کے آنے میں دیر لگی۔ عمر بن عبدالعزیزؒ نے دوسری بار بلند آواز سے بلایا تو بیٹی کے بجائے ان کی بیوی آ گئیں اور کہنے لگیں: بیٹی کی جگہ میں آئی ہوں، جو کام ہے مجھے بتا دیجئے۔ آپؒ نے پوچھا: بیٹی کیوں نہیں آرہی؟
بیوی نے جواب دیا: بیٹی جو کپڑے پہنے ہوئے تھی، بوسیدہ ہونے کی وجہ سے وہ کپڑے پھٹ گئے ہیں، اب وہ ساتھ والے کمرے میں کپڑے سی رہی ہے۔ یہ وقت کا خلیفہ ہے، جس کی بیٹی کے پاس بدن کے کپڑوں کے علاوہ کوئی اور کپڑے نہیں ہیں۔ خلیفہ وقت کی اتنی غربت والی زندگی تھی، مگر انہوں نے بچوں کو محبت سکھائی، خدمت سکھائی، نیکی سکھائی اور بچوں کے اندر خوب نیکی کا جذبہ پیدا کیا۔
چنانچہ جب عمر بن عبدالعزیزؒ مرض الوفات میں تھے۔ ان کا ایک دوست ملنے کیلئے آیا۔ حضرت عمرؒ لیٹے ہوئے تھے، ان کے دوست نے کہا:
عمربن عبدالعزیز! آپ نے بچوں کے ساتھ بھلا نہیں کیا۔
آپ نے پوچھا: کیوں؟ اس نے کہا اس لیے کے آپ سے پہلے جو بادشاہ آئے تھے، انہوں نے اپنی اولاد کیلئے بڑی بڑی جاگیریں اور جائیدادیں وقف کیں، بیت المال سے ہیرے جواہرات لے کر دیئے اور انہوں نے اپنی اولاد کو غنی کر دیا۔ مگر آپ تو اپنی اولاد کیلئے کچھ بھی چھوڑ کر نہیں جا رہے؟ آپ نے اپنی اولاد کے ساتھ اچھا نہیں کیا۔
جب اس نے یہ الفاظ کہے تو عمر بن عبدالعزیزؒ اٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمانے لگے: دیکھو اگر میری اولاد نیک بنی ہے تو میں ان کو خدا کی سرپرستی میں دے کر جا رہا ہوں، کیونکہ حق تعالیٰ فرماتے ہیں:
ترجمہ: خدا نیکوکاروں کا خود سرپرست ہوتا ہے۔
میں ان کو خدا کی سرپرستی میں دے کر جا رہا ہوں، اگر میری اولاد نیک بنی تو میں ان کے فسق و فجور کے اوپر معاون نہیں بن سکتا۔
عمر بن عبدالعزیزؒ نے یہ جواب دیا اور پھر آپؒ فوت ہو گئے۔
خدا کی شان دیکھیں، عمر بن عبدالعزیزؒ کے بعد جو بادشاہ بنا، اس کو صوبے سنبھالنے کیلئے گورنروں کی ضرورت تھی، اس نے لوگوں سے مشورہ کیا، مجھے عمر بن عبدالعزیزؒ جیسا ایماندار، دیانتدار انصاف کرنے والا اور اتنا وفا دکھانے والا بندہ چاہیے۔ لوگوں نے اس کو بتایا کہ تمہیں عمر بن عبدالعزیزؒ جیسا بندہ چاہیے تو ان کا بڑا بیٹا اپنے باپ جیسا ہے، اس کو ساتھ لے لو۔ چنانچہ وقت کے بادشاہ نے عمر بن عبد العزیزؒ
کے پہلے بیٹے کو گورنر بنایا۔ جب وہ گورنر بنا، اس کے باپ نے اسے محنت کرنا سکھایا تھا، رزق حلال کمانا سکھایا تھا، دیانت و امانت سکھائی تھی، اس نے اتنا اچھا کام کیا کہ چند دنوں کے بعد بادشاہ اس سے پوچھا کیا تمہارا کوئی اور بھائی بھی ہے؟ گورنر نے بتایا میرا ایک چھوٹا بھائی بھی ہے، وہ بالکل میری طرح ہے۔
بادشاہ نے عمربن عبد العزیزؒ کے ایک اور بیٹے کو صوبے کا گورنر بنا دیا۔ جب دو گورنر بنے۔ انہوں نے اتنا اچھا کام کیا کہ پھر اس بادشاہ نے تیسرے بھائی کو بھی گورنر بنا دیا۔
تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ ایک ایسا وقت بھی آیا کہ عمر بن عبدالعزیزؒ کے گیارہ بیٹے گیارہ صوبوں کے ایک ہی وقت میں گورنر بنے ہوئے تھے۔ یہ ہے کامیاب باپ۔ جس نے اپنے بچوں کو ایسی نیکی سکھائی کہ بعد والے لوگوں نے ان کے گیارہ بیٹوں کو ایک وقت میں گیارہ صوبوں کا گورنر بنا دیا۔
ہر باپ کو چاہئے کہ اولاد کی اچھی تربیت کرے۔ ان کو اچھا انسان بنانے کیلئے دعائیں بھی کرے اور کوشش بھی کرے۔ تمام والدین کو چاہئے کہ اپنے بچوں کی تربیت اس انداز میں کریں کہ وہ خدا کی عبادت کا بھی خیال رکھیں اور بندوں کے حقوق کا بھی۔ تاکہ ان کی دنیا بھی بن جائے اور آخرت بھی سنور جائے۔