حضرت واثلہ بن اسقعؒ فرماتے ہیں کہ حضرت حجاج بن علاط الہزاری سلمیؓ کے اسلام لانے کا سبب یہ ہوا کہ اپنی قوم
کے ساتھ مکہ روانہ ہوئے تھے، جب خطرناک وادی میں رات ہوگئی تو ان کو ساتھیوں نے کہا اے ابوکلاب! اٹھ اپنے اور اپنے ساتھیوں کے لیے امان پکڑو، تو حجاجؓ اٹھے اور ان کے گرد چکر لگایا اور حدبندی کی اور یہ شعر کہے:
ترجمہ: ’’میں اپنی اور اپنی جماعت کی پناہ طلب کرتا ہوں اس وادی کے ہر جن سے حتیٰ کہ میں اور میری جماعت صحیح سالم لوٹ جائیں۔‘‘
حضرت (حجاج بن علاطؓ) فرماتے ہیں، میں نے (ان اشعار کے کہنے کے بعد) کسی سے یہ آیت سنی:
ترجمہ: اے گروہ جن وانس! اگر تم کو یہ قدرت ہے کہ آسمان اور زمین کی حدود سے کہیں باہر نکل جائو تو (ہم بھی دیکھیں) نکلو، (مگر) طاقت کے بغیر نہیں نکل سکتے (اور طاقت ہے نہیں، پس نکلنے کا واقع ہونا بھی ممکن نہیں) (سورۃ الرحمن)
جب یہ مکہ میں پہنچے تو مجلس قریش کو بتلایا تو انہوں نے کہا اے ابو کلاب! قسم بخدا تو بے دین ہوگیا ہے۔ محمد کا دعویٰ ہے کہ یہ آیت ان پر نازل ہوئی ہے۔ انہوں نے فرمایا: خدا کی قسم! اس کو میں نے بھی سنا ہے اور میرے ان ساتھیوں نے بھی، یہ اسی طرح بیٹھے ہوئے تھے کہ عاص بن وائل آئے تو کفار قریش نے ان کو کہا اے ابوہشام! ابوکلاب جو کہہ رہے ہیں، تم نے بھی سنا ہے؟ انہوں نے کہا یہ کیا کہہ رہے ہیں؟ تو انہوں نے اپنا واقعہ بتلایا؟ تو عاص بن وائل نے کہا، تم اس سے حیران کیوں ہو رہے ہو۔ یہ آیت جس کو انہوں نے وہاں پر سنا ہے، یہ (آنحضرت) محمدؐ کی زبان (مبارک) پر القا ہوئی ہے، پھر اس قوم کفار نے مجھے آنحضرتؐ سے روکا، لیکن اس معاملے میں میری بصیرت اور بڑھ گئی تو آنحضرتؐ کے چچا زاد نے بتلایا کہ وہ مکہ سے مدینہ چلے گئے ہیں تو میں اپنی سواری پر سوار ہو کر روانہ ہوگیا، حتیٰ کہ مدینہ میں آنحضرتؐ کی خدمت شریف میں حاضر ہوگیا اور جو کچھ سنا تھا، آپ سے عرض کردیا تو آپ نے ارشاد فرمایا:ترجمہ: اے ابو کلاب، قسم بخدا، تم نے جو کچھ سنا حق سنا، خدا کی قسم! یہ میرے رب کا کلام ہے جو اس نے مجھ پر نازل فرمایا ہے۔تو میں نے عرض کیا: حضور! آپ مجھے اسلام کی تعلیم فرمائیں تو آپؐ نے مجھے کلمہ اسلام کی گواہی دلوائی اور فرمایا:اپنی قوم کی طرف روانہ ہو جائو، ان کو اس کی دعوت دو، جس طرح کہ میں نے تمہیں اس کی طرف دعوت دی ہے۔ ’’یہ دین حق ہے‘‘(دلائل نبوت)