قسط نمبر 24
حدیث کی سند کا آغاز کس طرح ہوا؟ اس کا پس منظر و پیش منظر کیا تھا؟ یہ ایک لمبا باب ہے، خلاصہ کے طور پر اتنا کہا جا سکتا ہے کہ جیسے جیسے زمانہ، نبوت کے مبارک دور سے دُور ہوتا گیا اور صحابہؓ کی مقدس جماعت کم ہوتی گئی، ویسے ویسے خیالات بدلتے گئے اور جوں جوں اسلام کا حلقہ وسیع ہوتا گیا، مختلف پارٹیاں اسلام کے نام پر متعارض خیالات کی پیدا ہوتی گئیں، جس کا آغاز خلیفہ ثالث حضرت عثمان غنیؓ کے آخری دور سے ہی شروع ہوگیا۔ کوفہ، بصرہ وغیرہ کے بلوائی غلط سلط باتیں عوام میں مشہور کرتے اور حضرت عثمان غنیؓ کے خلاف لوگوں کو بھڑکاتے، یہاں تک کہ مدینہ پر چڑھائی کر ڈالی اور خلیفہ راشدؓ کے گھر کا محاصرہ کرکے سنہ 25ھ میں انہیں شہید کر ڈالا۔ اس کے بعد گویا کہ فتنوں کا سیلاب امنڈ آیا، جنگ جمل، جنگ صفین کے علاوہ حضرت حسینؓ کی شہادت کا اندوہناک حادثہ رونما ہوا، پھر حضرت حسینؓ کے خون کا بدلہ لینے کے نام پر کتنے لوگ اٹھے، انہی میں مختار ثقفی بھی تھا، جو لوگوں کو پیسے دے دے کر اپنے مؤقف کی تائید میں حدیثیں گڑھواتا اور بھی مختلف اسباب پیش آئے اور حدیثیں گڑھی جانے لگیں، یہاں تک کہ صغار ِتابعین کا دور آیا تو حدیث کی سند اور اس کے رجال و راویوں کی تحقیق وتفتیش کا بہت اہتمام ہونے لگا، البتہ اس کے آغاز کا سہرا کس کے سر ہے تو اس سلسلے میں مختلف حضرات کے نام علماء کے مابین زیربحث رہے ہیں، ابراہیم نخعیؒ فرماتے ہیں مختار ثقفی کے دور سے اہتمام ہوا، مختار ثقفی سنہ 67ھ میں قتل کیا گیا، حضرت یحییٰ القطانؒ کہتے ہیں کہ سب سے پہلے سند کی تحقیق وتفتیش عامر شعبیؒ نے کی، جن کی وفات 100ھ یا 101ھ میں ہوئی، کوئی اولیت ابن سیرینؒ کو دیتا ہے، جن کی وفات 110ھ میں ہے، مدینہ میں امام زہریؒ نے کافی زور دیا، اس لیے بعض لوگوں نے انہی کو اس کا سرخیل مانا ہے، بہرحال اتنی بات قدر مشترک ہے کہ سند کا سلسلہ تو حضرت عثمان غنیؒ یا کم ازکم حضرت علیؓ و حضرت امیر معاویہؓ کے مابین اختلاف کے وقت سے شروع ہوگیا ہے، البتہ اس کی تفتیش و تحقیق کا کام ان ادوار میں اہتمام کے ساتھ ہوا، ابن سیرین نے اسی کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
’’لوگ اسناد سے متعلق سوالات نہیں کرتے تھے، مگر جب فتنہ رونما ہوا تو کہا کہ اپنی سند بیان کرو، پس اگر اہل سنت و الجماعۃ سے ہوگی تو ان کی حدیث قبول کی جائے گی اور اگر اہل بدعت ہے تو قبول نہیں کی جائے گی۔ (مقدمہ مسلم)
یہاں پر فتنہ سے مراد کم ازکم حضرت علیؓ وحضرت معاویہؓ کے مابین جو اختلافات بھڑکائے گئے، جن کے نتیجے میں جنگِ صفین کے نام پر مسلمانوں کی تلواریں آپس میں چلیں اور دونوں طرف سے مسلمان شہید ہوئے، وہ ہے۔ حاصل یہ ہے کہ دور صحابہؓ سے ہی سند کا سلسلہ چلا آرہا ہے۔
امام زہریؒ ائمہ حدیث کی نظر میں: علماء جرح وتعدیل نے آپؒ کا تذکرہ خیر کے ساتھ کیا ہے۔ آپ کی زندگی کا کوئی ایسا باب نہیں ہے، جس پر اعتراض کیا جاسکتا ہے۔ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے کہا ہے: ’’تم ابن شہابؒ کو لازمی پکڑو، کیونکہ گزری ہوئی سنن کے بارے میں ان سے بڑھ کر کوئی جاننے والا نہیں ہے۔‘‘ معروف تابعی قتادہؒ فرماتے ہیں: ’’گزشتہ سنن کے بارے میں ابن شہابؒ سے زیادہ علم رکھنے والا کوئی بھی باقی نہیں رہا۔‘‘ تابعی مکحولؒ فرماتے ہیں: ’’زمین کی پشت پر گزری ہوئی سنت کے بارے میں زہریؒ سے بڑھ کر کوئی عالم باقی نہیں رہا ہے۔‘‘ امام مالکؒ لکھتے ہیں: ’’ابن شہاب باقی رہ گئے اور ان کی کوئی مثال اس دنیا میں نہیں ہے۔‘‘ امام احمدؒ فرماتے ہیں: ’’زہریؒ لوگوں میں حدیث کے اعتبار سے سب سے بہتر اور سند کے اعتبار سے سب سے عمدہ ہیں۔‘‘ امام لیث بن سعدؒ فرماتے ہیں: ’’میں نے ابن شہاب زہریؒ سے زیادہ جامع العلوم کسی عالم کو نہیں دیکھا۔‘‘
امام ابن حبانؒ لکھتے ہیں: ’’انہوں نے دس صحابہؓ کی زیارت کی ہے اور اپنے زمانے کے سب سے بڑے حدیث کے حافظ تھے اور احادیث کے متون کو بیان کرنے میں سب سے اچھے تھے اور فقیہہ اور فاضل تھے۔ ‘‘(جاری ہے)