آخری حصہ
اجنبی نے ابن ساباط سے مزید کہا کہ … اس دنیا میں ہماری کوئی بات بھی خدا کے کاموں سے اس قدر ملتی جلتی نہیں ہے، جس قدر یہ بات کہ ہم ایک دوسرے کو معاف کر دیں اور بخش دیں۔ لیکن اس سے قبل کہ میں تم سے الگ ہوں تمہیں بتلا دینا چاہتا ہوں کہ میں وہ نہیں ہوں، جو تم نے خیال کیا۔ میں اسی مکان میں رہتا ہوں، جہاں آج تم سے ملاقات ہوئی تھی اور تم نے میری رفاقت قبول کر لی تھی۔ میری عادت ہے کہ رات کو تھوڑی دیر کے لیے اس کمرے میں جایا کرتا ہوں، جہاں تم بیٹھے تھے۔ آج آیا تو دیکھا، تم اندھیرے میں بیٹھے ہو اور تکلیف اٹھا رہے ہو، تم میرے گھر میں عزیز مہمان تھے۔ (حالانکہ ابن ساباط ڈاکو چوری کیلئے گھر میں گھسا تھا) افسوس میں آج اس سے زیادہ تمہاری تواضع اور خدمت نہ کرسکا۔ تم نے میرا مکان دیکھ لیا ہے، آئندہ جب کبھی تمہیں ضرورت ہو تو بلا تکلف اپنے رفیق کے پاس آسکتے ہو۔ خدا کی سلامتی اور برکت ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے۔‘‘
اجنبی نے یہ کہا اور آہستگی سے اس کا اکلوتا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر مصافحہ کیا اور تیزی کے ساتھ نکل کر روانہ ہو گیا۔ اجنبی خود تو روانہ ہو گیا، لیکن ابن ساباط کو ایک دوسرے ہی عالم میں پہنچا دیا، اب وہ مبہوت اور مدہوش تھا، اس کی آنکھیں کھلی تھیں، وہ اسی طرف تک رہی تھیں جس طرف سے اجنبی روانہ ہوا تھا، لیکن معلوم نہیں اس کو کچھ سجھائی بھی دیتا تھا یا نہیں؟
دوپہر ڈھل چکی تھی۔ بغداد کی مسجد سے جوق در جوق نمازی نکل رہے تھے، دوپہر کی گرمی نے امیروں کو تہہ خانے میں اور غریبوں کو دیواروں کے سائے میں بٹھا دیا تھا۔ اب دونوں نکل رہے ہیں۔ ایک تفریح کے لئے دوسرا مزدوری کے لئے، لیکن ابن ساباط اس وقت تک وہیں بیٹھا ہے، جہاں صبح بیٹھا تھا۔ رات والی دونوں گٹھڑیاں سامنے پڑی ہیں اور اس کی نظریں ان پر گڑی ہوئی ہیں۔ گویا ان کی شکنوں کے اندر اپنے رات والے رفیق کو ڈھونڈ رہا ہے۔ بارہ گھنٹے گزر گئے، لیکن جسم اور زندگی کی کوئی ضرورت اسے محسوس نہیں ہوئی۔ وہ بھوک جس کی خاطر اس نے اپنا ایک ہاتھ کٹوا دیا تھا، اب اسے نہیں ستاتی۔ وہ خوف جس کی وجہ سے سورج کی روشنی اس کیلئے دنیا کی سب سے زیادہ نفرت انگیز چیز ہوگئی تھی، اب اسے محسوس نہیں ہوتا۔ اس کے دماغ کی ساری قوت صرف ایک نقطے میں سمٹ آئی ہے اور وہ رات والے عجیب و غریب اجنبی کی صورت ہے، وہ خود تو اس کی نظروں سے اوجھل ہو گئی، مگر اسے کسی اور ہی عالم میں پہنچا گئی۔ ایک مرتبہ حافظے میں یہ سرگزشت ختم ہو جاتی تو پھر نئے سرے سے یاد کرنا شروع کر دیتا اور آخر تک پہنچ کر پھر ابتدا کی طرف لوٹتا۔ میں چور تھا۔ میں اس کا مال و متاع غارت کرنا چاہتا تھا، میں نے اسے بھی چور سمجھا۔ اسے گالیاں دیں۔ بے رحمی سے ٹھوکر لگائی، مگر اس نے میرے ساتھ کیا سلوک کیا؟ ہر مرتبہ اس آخری سوال کا جواب سوچتا اور یہی سوال دہرانے لگتا۔
سورج ڈوب رہا تھا، بغداد کی مسجدوں کے میناروں پر مغرب کی اذان کی صدائیں بلند ہو رہی تھیں۔ ابن ساباط بھی اپنے غیر آباد گوشے سے اٹھا، چادر جسم پر ڈالی اور بغیر کسی جھجھک کے باہر نکل گیا۔ اب اس کے دل میں خوف نہیں تھا، کیونکہ خوف کی جگہ ایک دوسرے ہی جذبے نے لے لی تھی۔ وہ کرخ کے اسی حصہ میں پہنچا، جہاں رات گیا تھا۔ رات والے مکان کو پہچاننے میں اسے کوئی دقت پیش نہیں آئی، مکان کے پاس ہی ایک لکڑہارے کا جھونپڑا تھا۔ اس کے پاس گیا اور پوچھا: یہ جو سامنے بڑا سا احاطہ ہے، اس میں کون تاجر رہتا ہے؟
تاجر؟ بوڑھے لکڑہارے نے تعجب سے کہا: ’’معلوم ہوتا ہے کہ تم یہاں کے رہنے والے نہیں ہو، یہاں تاجر کہاں سے آیا۔ یہاں تو شیخ جنید بغدادیؒ رہتے ہیں۔‘‘ ابن ساباط اس نام کی شہرت سے بے خبر نہ تھا، لیکن صورت آشنا نہ تھا۔ ابن ساباط مکان کی طرف چلا، رات کی طرح اس وقت بھی دروازہ کھلا تھا۔ یہ بے تامل اندر چلا گیا۔ سامنے وہی رات والا ایوان تھا، یہ آہستہ آہستہ بڑھا اور دروازے کے اندر نگاہ ڈالی، وہی رات والی چٹائی بچھی تھی، رات والا تکیہ ایک طرف دھرا تھا، تکیہ سے سہارا لگائے اجنبی بیٹھا تھا، تیس چالیس آدمی سامنے تھے، واقعی اجنبی تاجر نہیں تھا، شیخ جنید بغدادیؒ تھے۔ اتنے میں عشاء کی اذان ہوئی، لوگ اٹھ کھڑے ہوئے، جب سب لوگ جا چکے تو شیخ بھی اٹھے۔ جونہی انہوں نے دروازہ کے باہر قدم رکھا، ایک شخص بے تابانہ بڑھا اور قدموں پر گر گیا۔ یہ ابن ساباط تھا، اس کے دل میں سمندر کا تلاطم بند تھا، آنکھوں میں جو کبھی تر نہیں ہوئی تھیں، دجلہ کی سوتیں بھر گئی تھیں۔ آنسوؤں کا سیلاب آجائے تو پھر کون سی کثافت ہے، جو باقی رہ سکتی ہے۔ شیخ نے شفقت سے اس کا سر اٹھایا، یہ کھڑا ہو گیا، مگر زبان نہ کھل سکی اور اب اس کی ضرورت بھی کیا تھی! جب نگاہوں کی زبان کھل جاتی ہے تو منہ کی زبان کی ضرورت نہیں رہتی۔ اس واقعہ پر کچھ عرصہ گزر چکا ہے۔ شیخ احمد ابن ساباط کا شمار سید الطائفہ کے حلقہ ارادت کے ان فقرا میں ہے، جو سب میں پیش پیش ہیں۔ شیخ کہا کرتے تھے، ابن ساباط نے وہ راہ لمحوں میں طے کر لی، جو دوسرے برسوں میں نہیں کر سکتے۔ ابن ساباط کو چالیس سال تک دنیا کی دہشت انگیز سزائیں نہ بدل سکیں، مگر محبت اور قربانی کے ایک لمحہ نے چور سے ولی کامل بنا دیا۔
نگاہ ولی میں وہ تاثیر دیکھی
بدلتی ہزاروں کی تقدیر دیکھی
(بشکریہ: ماہنامہ سوئے حرم۔ تحریر: مولانا ابو الکلام آزادؒ)