قسط نمبر 203
عباس ثاقب
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جس نے نوجوانی کے امنگوں بھرے دور میں اپنی جان خطرے میں ڈال دی۔ صرف اس لئے کہ وطن عزیز پاکستان کو دشمنوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔ جمال صاحب کراچی کے قدیم رہائشی ہیں اور ان دنوں گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ عمر کے آخری حصے میں بصد اصرار اس بات پر آمادہ ہوئے کہ اپنی زندگی کے تہلکہ خیز گوشوں سے پردہ اٹھائیں۔ ان کا اصل نام کچھ اور ہے۔ بعض نا گزیر اسباب کی بنا پر انہیں ’’جمال‘‘ کا فرضی نام دیا گیا ہے۔ اس کہانی کو ڈرامائی شکل دینے کیلئے کچھ زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی۔ کیونکہ یہ حقیقی ایڈوینچر کسی سنسنی خیز ناول سے زیادہ دلچسپ ہے۔ جمال صاحب کی کہانی ان لوگوں کیلئے دعوتِ فکر ہے، جنہیں یہ ملک بغیر کسی جد و جہد اور محنت کے ملا اور انہوں نے اس کی قدر کرنے کے بجائے اسی سے شکایات شروع کر دیں۔ امید ہے کہ قسط وار پیش کی جانے والی یہ کہانی ’’امت‘‘ کے خوش نظر قارئین کی پذیرائی حاصل کرے گی۔ (ادارہ)
اس دوران میں ہم اپنے ٹھکانوں کے قریب پہنچ گئے تھے۔ میں نے ظہیر کو اس کے مسافر خانے سے ذرا فاصلے پر اتارتے ہوئے کہا۔ ’’تم اپنا حساب صاف کر کے یہیں میرا انتظار کرو۔ میں بھی شانتی استھان سے جان چھڑاکر آتا ہوں۔ بڑی گندی جگہ ہے۔ ایک رات گزارنی مشکل ہوگئی تھی۔ اب یہاں سے غائب ہونا ہے۔ پرسوں شام سیدھے مانک کی کوٹھی پر پہنچیں گے‘‘۔
ظہیر مزید کوئی سوال جواب کیے بغیر چل دیا۔ میں نے اپنی جیپ شانتی استھان کے سامنے جاکر روک دی۔ میں نے چوکی دار کے سلام کے جواب میں ایک روپیہ بخشش دی اور سیڑھیاں چڑھ کر اوپری منزل پر پہنچا۔ رندھیر اپنی’’ شبینہ‘‘ ڈیوٹی کے لیے نیند پوری کر کے شاید کچھ ہی دیر پہلے بیدار ہوا تھا۔ اس نے اپنا غلیظ منہ کھول کر جماہی لی اور خمار بھرے لہجے میں سوال کیا۔ ’’مانک جی سے ملاقات کیسی رہی آپ کی؟‘‘۔
میں نے اپنے لہجے میں جوش اور مسرت کے ملے جلے جذبات لاتے ہوئے کہا۔ ’’بہت اچھی رہی۔ میں تو سمجھ رہا تھا عورتوں کی خرید و فروخت کرنے والے زیادہ تر دلالوں کی طرح کوئی جاہل، گنوار بندہ ہوگا۔ لیکن اس گندے دھندے سے جڑا ہونے کے باوجود وہ تو کافی پڑھا لکھا اور سمجھ دار لگا مجھے!‘‘۔
مجھے ایک سایہ سا رندھیر کے بدنما چہرے پر لہراتا نظر آیا اور پھر کبیدگی اور ملال نے قبضہ جمالیا۔ مجھے دل ہی دل میں خوشی ہوئی۔ میں مطلوبہ نفرت آمیز پیغام اس غلیظ آدمی تک پہنچانے میں کامیاب رہا تھا۔ لیکن وہ گھاگ آدمی اپنی دلی کیفیت چھپاتے ہوئے اپنے لہجے کو خوش گوار رکھنے میں کامیاب رہا۔ ’’مانک جی بڑے زندہ دل اور خوش اخلاق انسان ہیں۔ اپنے نوکروں کا خیال رکھتے ہیں۔ یہ بتائیں ان سے ملاقات کا کیا نتیجہ رہا؟ آپ کا کام بنا یا نہیں؟ میرا مطلب ہے لڑکیاں پسند آئیں آپ کو؟‘‘۔
میں نے پُرشوق لہجے میں کہا۔ ’’ہاں، دونوں ہی اپسرا سے بڑھ کر حسین ہیں۔ فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا کہ کس کا انتخاب کروں، اس لیے دونوں کا سودا کر لیا!‘‘۔
میری بات سن کر رندھیر کے سیاہ چہرے پر پہلے حیرانی اور پھر مرعوب ہونے کے آثار چھاگئے۔ اس نے بمشکل کہا۔ ’’مگر ان کے تو بہت بھاری دام مانگتے تھے۔ درجنوں گاہکوں کی بولی ٹھکرا چکے ہیں‘‘۔
میں نے اپنے لہجے میں غرور بھرتے ہوئے کہا۔ ’’لیکن میں نے منہ مانگی رقم میں سودا کیا ہے۔ اپنی پسند کا مال میں نے کبھی ہاتھ سے جانے نہیں دیا‘‘۔
یہ کہہ کر میں نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈال کر نوٹ نکالے اور دو سو روپے گن کر اس کے ہاتھ میں رکھ دیئے۔ ’’یہ لو اپنی محنت کا انعام، جو تمہیںاب تک کرنی ہی نہیں پڑی‘‘۔
نوٹ ہاتھ میں آتے ہی اس کا چہرہ چمک اٹھا۔ اس نے رقم اپنی اندرونی جیب میں رکھی اور پرجوش لہجے میں کہا۔ ’’دھن باد سردار جی۔ میں آپ کا خادم ہوں۔ آپ حکم کریں، جو کہیں گے حاضر کردوں گا‘‘۔
میں نے بے پروائی سے کہا۔ ’’فی الحال تو میرا حساب بتادو۔ میں دلّی واپس جا رہا ہوں۔ مال لینے کے لیے سیدھا مانک کی کوٹھی پر جاؤں گا‘‘۔
اس نے احسان مندی سے کہا۔ ’’جو آگیا سرکار۔ ابھی لو!‘‘۔
وہ میرے ساتھ بنفس نفیس میرے کمرے میں آیا اور میرا مختصر سا سامان خود اٹھاکر جیپ تک پہنچایا اور میرے جیپ چلانے تک ہاتھ ہلاتا رہا۔ ظہیر مقررہ جگہ پر میرا منتظر تھا۔ اس کے ساتھ والی سیٹ سنبھالتے ہی میں نے جیپ آگے بڑھادی۔ ’’یار ظہیر، مانک کو پرسوں کا تو کہہ دیا، لیکن ابھی تک یہ تو سوچا ہی نہیں کہ یہ دو راتیں کہاں گزارنی ہیں‘‘۔
ظہیر نے کہا۔ ’’ویسے تو ہم کسی بھی دوسرے مسافر خانے میں ٹھہر سکتے ہیں، لیکن اس طرح مانک اور رندھیر یا ان کے چمچوں کی نظروں میں آنے کا خطرہ رہے گا‘‘۔
میں نے سر ہلاکر اس کی تائید کی۔ ’’ کیا خیال ہے، سردار امر دیپ کے گاؤں چلیں؟ انہیں ہماری میزبانی کر کے خوشی ہوگی‘‘۔
ظہیر نے خلاف توقع نفی میں سر ہلایا۔ ’’میں آپ کو اس کی صلاح نہیں دوں گا۔ آپ وہاں کئی بکھیڑے چھوڑ کر آئے ہیں۔ شاید اس کے پھوپھا کی ہلاکت کا معاملہ منظر عام پر آگیا ہو اور پولیس اس کے قاتلوں کی بو سونگھتی ہوئی آپ کے میزبانوں کی حویلی تک پہنچ گئی ہو۔ آپ کی وہاں موجودگی خوامخواہ کی الجھن میں ڈال سکتی ہے‘‘۔
میں نے چونک کر کہا۔ ’’یار، اس پہلو پر تو میں نے سوچا ہی نہیں۔ امکان تو کم ہے، لیکن خطرہ مول لینے کی ضرورت بھی کیا ہے؟‘‘۔اپنی بات ماننے پر ظہیر خوش دکھائی دیا۔ میں نے کہا۔ ’’یار دراصل مجھے اپنے پاس موجود سونے کی ٹکیوں کو روپیوں سے بدلوانا ہے۔ سردار امر دیپ کی مدد سے یہ کام آسان ہو جاتا۔ یہ تو تم سمجھتے ہی ہو کہ ہم منہ اٹھائے کسی سنار کے پاس پہنچ گئے تو نظروں میں آنے کا سنگین خطرہ درپیش ہوگا‘‘۔ظہیر نے میری بات غور سے سنی اور پھر کچھ دیر سوچ کر کہا۔ ’’میرا خیال ہے ہمارا یہ کام تو یاسر بھٹ بھی کراسکتا ہے۔ ایک بڑے بیوپاری کی حیثیت سے وہ بھاری رقموں کا لین دین کرتا رہتا ہے۔ لدھیانے کے صرافہ بازار میں آپ کے سونے کے مناسب دام ملیں گے اوراس پر کسی کو شک نہیں ہوگا۔ ہوسکتا ہے وہ خود سونا رکھ کر اس کے مساوی رقم ہمارے حوالے کر دے‘‘۔ (جاری ہے)