قسط نمبر 12
اقبال احمد خان کا نام شاید آج کی نسل نہ جانتی ہو۔ لیکن پرانے لوگ انہیں اچھی طرح جانتے ہیں۔ انہوں نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز آل انڈیا مسلم لیگ سے کیا۔ تب قائد اعظمؒ مسلم لیگ کے سربراہ تھے۔ آنے والے برسوں میں اقبال احمد خان مسلم لیگ کے جنرل سیکریٹری منتخب ہوئے اور کئی دہائیوں تک یہ ذمہ داری انجام دیتے رہے۔ وہ لیاقت علی خان سے لے کر بے نظیر تک پاکستان کے تمام اہم واقعات کے چشم دید گواہ تھے۔ سر تا پا پاکستانی اور مسلم لیگی تھے۔ دبنگ۔ نڈر۔ دیانت دار اور بلا کے ذہین۔ اقبال احمد خان سے منیر احمد منیر نے ایک تفصیلی انٹرویو کیا تھا۔ جو کتاب ’’اس نے کہا‘‘ کے نام سے 1996ء میں شائع ہوا۔ قارئین کی معلومات اور دلچسپی کیلئے اس کتاب کے اقتباسات پیش کئے جا رہے ہیں۔ (ادارہ)۔
س: جون 94ء میں سینیٹ کے بائی الیکشن میں آپ امیدوار تھے، لیکن بن گئے چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل؟
ج: سینیٹ کا بائی الیکشن جب آیا۔ مجھے اور چٹھہ صاحب کو بے نظیر نے بلایا۔ کہنے لگیں، چٹھہ صاحب سے پوچھ لیں میں نے خود ان سے کہا چٹھ صاحب نے تو نہیں کہا۔ جب یہ سیٹ خالی ہوئی اس دن میں نے چٹھہ صاحب سے کہا کہ میرا خیال ہے خاں صاحب (اقبال احمد خاں) اس کے لئے موزوں رہیں گے۔ وہ وہاں ہمارے لئے مفید ہو سکتے ہیں۔ لیکن میں پہلے اپنی پارٹی کو کانفی ڈینس میں لے لوں۔ جب میں پارٹی کے پاس گئی تو انہوں نے کہا کہ آپ مسلم لیگیوں کے رعب میں آجاتی ہیں۔ وہ آپ کو بلیک میل کرتے ہیں اور آپ مان جاتی ہیں۔ ہم ووٹ نہیں دیں گے۔ کہنے لگیں، سچی بات ہے مجھے اس بات کا خیال ہے کہ خاں صاحب شریف آدمی ہیں۔ اگر ان کو ٹکٹ دے دوں اور ووٹ میری پارٹی والوں نے نہ دیئے تو ان کی بے عزتی ہوگی اور میری بے عزتی بھی ہوگی، اس لئے میں نے انکار کر دیا۔ میں نے کہا، بی بی، یہ میری ذات کا معاملہ ہے، میرے ساتھ بات نہ کریں، چٹھہ صاحب سے بات کریں۔ پھر انہوں نے چٹھہ صاحب کے ساتھ بات کی کہ ’’چٹھہ صاحب میں ان پر اعتماد کرتی ہوں، لیکن میری مشکلات ہیں۔ میں نے خاں صاحب کو معقول آدمی پایا ہے۔ انہیں کہیں کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی چیئرمین شپ کے لئے مان جائیں۔ انہیں کچھ کرنا چاہئے۔ میں نے ان کا بیان پڑھا۔ میں بڑی متاثر ہوں‘‘۔ میں نے تقریر کی تھی کہ اسلام کس قسم کا نظام حکومت چاہتا ہے۔ ’’میں چاہتی ہوں کہ یہ بن جائیں۔ یہ محنت کریں۔ کوئی سسٹم بنائیں، جس میں ملائیت نہ ہو۔ لیکن ایک پروگریسو اسلامک ویلفیئر اسٹیٹ بنانے کا سلسلہ ہو۔ یہ بے کار جو بیٹھے ہیں، کچھ کریں۔ یہ میری بات مانتے نہیں۔ میں چٹھہ صاحب کے سامنے وعدہ کرتی ہوں کہ اب سینٹ کی جو بھی سیٹ خالی ہوگی وہ سیٹ میں ان کو دوں گی۔ بشرطیکہ وہ سیٹ پیپلز پارٹی کے بندے کی نہ ہو۔ وہ میرے لئے مشکلات ہوں گی۔ میں انہیں سینیٹر بنواؤں گی۔ لیکن چٹھہ صاحب میں وہ آپ کو سیٹ نہیں دوں گی۔ پہلے میں نے دو دفعہ آپ کو سیٹ دیئے ہیں اور وہ آپ نے کسی اور کے حوالے کر دیئے۔ یہ سیٹ اقبال احمد خاں کے لئے ہوگی۔ اس کا اعلان میں کروں گی۔ کامیاب میں کراؤں گی۔ آپ کو اس لئے وہ سیٹ نہیں دوں گی کہ اگر آپ کے حوالے کی تو آپ اور کوئی فضہ ڈھونڈ لیں گے‘‘۔ یہ وزیر اعظم نے کہا۔ میں نے کہا۔ بی بی مجھے کوئی دلچسپی نہیں۔ میں نے اجازت لی اور چلا آیا۔ میرے بعد انہوں نے چٹھہ صاحب سے گلہ کیا کہ میں نے خاں صاحب کو بزرگ سمجھ کے بلایا۔ انہوں نے میری بات سننے سے انکار کر دیا اور کہا، چٹھہ صاحب سے بات کریں۔
اس کے بعد انہوں نے چٹھہ صاحب سے کہا سنا۔ میں ان دنوں بیمار تھا۔ میری طبیعت کافی خراب تھی۔ میں سوچ رہا تھا علاج کرانے کے لئے۔ میں لوکل ڈاکٹرز کے پاس جا چکا تھا۔ یہ اس سے تین مہینے پہلے کی بات ہے۔ اپریل (94ء) میں مجھے ڈاکٹروں نے کہا کہ آپ کو دل کے بائی پاس آپریشن کے لئے امریکہ جانا چاہئے۔ یا پھر ANGIOPLASTI کرائیں۔ میں ڈاکٹر شہریار کے پاس گیا۔ انہوں نے بھی یہی کہا۔ ڈاکٹر کرنل مجیب الحق ہیں آرمی کے، آرمی کا اسلام آباد میں جو بنا ہے بڑا اسپتال۔ انہوں نے کہا کہ آپ کو تین ماہ کے اندر اندر وہاں چلے جانا چاہئے۔ میں بہیترا کہوں نہیں۔ وہ نہ مانیں۔ وہ کہیں وجہ کیا ہے۔ میں ٹال دوں۔ وہ کہیں ہم رسک نہیں لے سکتے۔ آپ کو ضرور جانا چاہئے۔ وزیر اعظم کو پتہ چلا، انہوں نے میرے پاس احمد صادق کو بھیجا۔ انہوں نے کہا، بی بی کہتی ہیں کہ خاں صاحب کی طبیعت ٹھیک نہیں۔ ان سے پوچھو کس ڈاکٹر سے علاج کرانا ہے۔ میں نے سیاسی وجوہ کی بنا پر کہہ دیا، نہیں میں ٹھیک ٹھاک ہوں۔ میں نے انہیں جواب دے دیا۔ پھر میں نے سوچنا شروع کیا کہ کون سی چیز بیچوں اور جاؤں۔ کسی سے مانگتے ہوئے شرم بھی آتی ہے۔ میرے بہت دوست ہیں جو راہ للہ نہ دیں، کم از کم ادھار دے سکتے ہیں۔ لیکن کسی سے جاکے مانگنا بڑا مشکل کام ہے، خواہ وہ کتنا ہی عزیز کیوں نہ ہو۔ مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہے کہ 1948ء میں میری ماں ٹی بی کا شکار تھیں۔ میرے پاس کوئی پیسہ نہیں تھا۔ ان کے لئے STREPTOMYCIN کا ٹیکا خریدنے کے لئے صرف پانچ روپے درکار تھے۔ میں ایک دوست کے پاس چلا گیا۔ اس سے پانچ روپے ادھار مانگنے کے لئے میں سارا دن اس کے پاس بیٹھا رہا۔ لیکن مانگ نہیں سکا۔ اٹھ کے چلا آیا۔ گھر آکے جھوٹ بولا۔ اس زمانے میں جھوٹ مانا جاتا تھا کہ میں سارا لاہور پھرا ہوں ٹیکا نہیں ملا۔ یہ کوئی سوکھا کام نہیں پیسے مانگنا۔ خیر…۔
چٹھہ صاحب وزیراعظم کے ساتھ کمٹ کر آئے۔ ٹھیک ہے جی ہمیں کونسل کی چیئرمین شپ قبول ہے۔ آپ نوٹی فیکیشن کرکے میرے حوالے کریں۔ انہوں نے کہا، اگر خاں صاحب نہ مانے تو میں کیا کروں گی۔ بے عزتی ہوگی میری۔ چٹھہ صاحب نے کہا، نہیں جی، کردیں۔ چٹھہ صاحب میرے پاس آئے اور کہا، بھائی یہ آرڈر پکڑیں اور جاکے اپنا علاج کرائیں۔ دل کرے گا تو آکے استعفا دے دینا۔ چنانچہ مجھے یاد ہے کہ گیارہ باہ جون یہ ہوا اور میں 7 جولائی (94ئ) کو امریکہ روانہ ہوگیا۔ سرکاری علاج ہوا۔ اللہ نے مہربانی کی میں ٹھیک ہوگیا۔ واپس آکے میں مزید بہتر ہوگیا۔ ٹائم تھا نہیں۔ میں نے چٹھہ صاحب سے کہا، آپ نے بڑی زیادتی کی ہے۔ انہوں نے کہا، یار بات سن۔ نہ آپ کسی سے پیسے لیتے ہیں۔ بے نظیر نے آپ کے پاس سات دفعہ آدمی بھیجا کہ بتائیں کہاں علاج کرانا چاہتے ہیں، آپ کا فوراً انتظام کر دیتے ہیں۔
اب میں کیا کرتا۔ میں یہی کہوں گا کہ نہ چھوڑ (چیئرمین شپ)۔ انہوں نے صدق دل سے وعدہ کیا ہے کہ جب موقع ملا آپ کو ٹکٹ دیں گی۔
س: چیئرمین شپ کا تجربہ کیسا رہا؟
ج: جو آدمی اسمبلی کے اندر ہوتا ہے اس کی حیثیت اور ہوتی ہے۔ اس کا ووٹ ہوتا ہے۔ جو میرے پاس آفس ہے یہ نان پولٹیکل ہے۔ اگر میں سویرے کہوں کہ میں آپ کی ایسی تیسی پھیرتا ہوں تو بے نظیر کو کیا تکلیف ہے۔ وہ کسی اور کو چیئرمین بنا دیں گی۔ اگر میں وٹو سے کہوں تو کیا؟ پھر میں نے سمجھایا، یہ بھی میری حماقت۔ میں نے وٹو، چٹھہ صاحب اور بریگیڈیئر اصغر سے کہا کہ سینیٹ کے بائی الیکشن والی سیٹ ڈھائی سال کے لئے تھی۔ وزیر اعظم نے یہ مجھے تین سال کی وزارت دی ہے۔ یہ جو میرا آفس ہے، یہ خود مختار ہے۔ یعنی وہ مجھے کہتی رہیں ایڈوائزر بننے کے لئے، اس سے پہلے کی بات ہے۔ میں نے کہا، میں ایڈوائزری نہیں لیتا۔ وہ مجھے کہتی رہیں۔ میں نہیں مانا۔ ایڈوائزر تو ان کے رحم و کرم پر ہوگا۔
س: وہ تو ملازم ہوگیا۔
ج: بریگیڈیئر اصغر یا انور سیف اللہ کُسک سکتے ہیں اس کے سامنے؟
س: نہیں۔
ج: وہ بیٹھی ہیں کیبنٹ میٹنگ میں۔ اور یہ یوں کر کے بیٹھے ہیں۔ یہ جو آفس ہے اس سے مجھے بے نظیر ہٹا نہیں سکتیں۔ اور نہ فاروق لغاری ہٹا سکتے ہیں۔ کانسٹی ٹیوشن میں تین سال کی پوسٹ ہے۔ میرا دل کرے دفتر جاؤں، دل کرے نہ جاؤں۔ میرے پیش روؤں میں سے کسی نے دفتر کی شکل نہیں دیکھی۔
س: کوثر نیازی سمیت؟
ج: کوثر نیازی نے اپنے گھر میں دفتر بنالیا تھا۔ میرے پاس دفتر والے بندے آئے کہ آپ نے آفس گھر بنانا ہے یا دفتر آنا ہے۔ میں نے کہا، دفتر آنا ہے۔ گھر بیٹھ کے میں نے کیا کرنا ہے۔ مجھے کہتے ہیں، آپ کا مکان کس کے نام ہے۔ میں نے کہا، میرے نام ہے۔ کہنے لگے، جی آپ اپنے منڈے سے لکھوا دیں تو بارہ ہزار مہینہ ملا کرے گا۔ میں نے کہا، میرا اپنا گھر ہے۔ میں منڈے سے کیا لکھوا کے دوں۔ کہنے لگے، جی مولانا کوثر نیازی نے لکھ دیا تھا کہ دفتر وہاں رکھنا ہے۔ دفتر کرایہ بارہ ہزار ملنے لگا۔ (جاری ہے)