برطانیہ میں سوالاکھ بچے کرسمس کی خوشیوں سے محروم رہیں گے

ایس اے اعظمی
برطانیہ میں سوا لاکھ سے زائد بچے کرسمس کی خوشیوں سے محروم رہیں گے۔ انہیں کوئی کھلونے یا نئے کپڑے دے گا اور نہ ہی گرما گرم خصوصی پکوان اور مٹھائیاں ان کے نصیب میں ہوں گی۔ یہ وہ بے گھر بچے ہیں جنہوں نے فٹ پاتھوں، پارکوں اور پلوں کو اپنا ٹھکانہ بنا رکھا ہے۔ برطانوی میڈیا کے مطابق سابق وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کے دور حکومت میں بے گھر بچوں کی تعداد 71 ہزار تھی جو آٹھ برسوں میں بڑھ کر ایک لاکھ تیس ہزار کے لگ بھگ ہوچکی ہے۔ برطانوی انسانی حقوق اور بچوں کی بہبود کی تنظیموں نے شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ اسٹریٹ چلڈرن کی فلاح و بہبود کیلئے ٹھوس اقدامات اٹھائے۔ واضح رہے کہ بے گھر برطانوی بچوں میں زیادہ تر وہ ہیں جو بغیر شادی کئے جوڑوں کی اولاد ہیں۔ ایک تعداد گھروں سے بھاگ جانے والے اورجرائم سمیت منشیات کی عادات میں مبتلا بچوں کی بھی ہے۔ ان کی عمریں اوسطاً بارہ سے سترہ اور اٹھارہ برس ہیں۔ صبح ان کیلئے گر م پانی، واش روم یا ناشتے کا کوئی انتظام نہیںہوتا اور وہ ان سہولیات کیلئے خیراتی اداروں کے مرہون منت ہوتے ہیں۔ برطانوی جریدے ڈیلی مرر کی رپورٹ کے مطابق سوا لاکھ سے زائد بچوں کے کرسمس کی خوشیوں سے دور ہونے کی خبروں کی برطانوی حکومت نے بھی تصدیق کی ہے۔ برطانوی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ ان بچوں کی بہتری کیلئے جلد ہی اقدامات کرے گی۔ لندن میں موجود صحافی جو روبرٹس کا کہنا ہے کہ برطانوی حکومت بے گھر اطفال کی رجسٹرڈ تعداد ایک لاکھ بیس ہزار مانتی ہے لیکن بچوں کی بہبود کی برطانوی تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ یہ تعداد ڈیڑھ لاکھ تک ہوسکتی ہے۔ اس ضمن میں لیبر پارٹی کے شیڈو ہائوسنگ سیکریٹری جون ہیلے کا کہنا ہے کہ موجود اعداد و شمار کے مطابق برطانوی سوسائٹی میں اطفال کے بے گھر ہونے کا رجحان تیز ہورہا ہے۔ منسٹری آف ہائوسنگ اینڈ کمیونٹیز کا کہنا ہے کہ برطانوی خاندانوں کی ایک بہت بڑی تعداد خود بے گھرہے اور ایسے بے گھر خاندانوں کی تعداد82 ہزار سے زائد ہوچکی ہے۔ ان اعداد و شمار کی برطانوی حکومت کیلئے کام کرنے والی تنظیم ’’ہوم لیسنیس چیریٹی شیلٹر‘‘ نے بھی تصدیق کی ہے۔ برطانوی اطفال کی بہبود کی تنظیموں نے بتایا ہے کہ برطانوی سرزمین پر بچوں کے ساتھ خود ان کے والدین کا رویہ اچھا نہیں ہے۔ ہر سال سینکڑوں نونہال اور شیر خوار بچے اپنے ہی والدین یا مائوں کے دوستوں کے ہاتھوں تشدد کرکے ہلاک کردئے جاتے ہیں۔ برطانوی تنظیم ’’منی ایڈوائس یو کے‘‘ نے دعویٰ کیا ہے کہ اس وقت 52 فیصد برطانوی بچے اپنے والدین کو کم عمری سے ہی گھریلو اخراجات کی مد میں رقوم ادا کرتے ہیں، جس کو ’’یوٹیلٹی بلز پے منٹ‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔

Comments (0)
Add Comment