کراچی کے سرکاری اسکولوں سے بے سروپاڈیٹا اکٹھا کیا جانے لگا

عظمت علی رحمانی
محکمہ تعلیم سندھ نے شعبہ میں کارکردگی بڑھانے کے بجائے نمائشی اقدامات شروع کر دیئے ہیں۔ ڈائریکٹر پرائمری اسکول، ڈائریکٹر ایلیمنٹری و سکینڈری ایجوکیشن نے کراچی کے تمام اسکولوں کے سربراہان کو خط لکھ کر ایک سو کے لگ بھگ سوالات کے جواب مانگے ہیں۔ بے سر و پا اور مشکوک سوالا ت کے جوابات ڈائریکٹر آفس میں بلا کر بھی لکھوائے گئے ہیں، جس کی وجہ سے سرکاری اسکولوں کے ہیڈ ماسٹرز اور والدین میں شدید تشویش پائی جاتی ہے۔
’’امت‘‘ کو حاصل ہونے والی دستاویزات کے مطابق گزشتہ ہفتے محکمہ ایجوکیشن سندھ کے ماتحت ڈائریکٹوریٹ آف اسکول ایجوکیشن کراچی ریجن کریم آباد کے ڈائریکٹر پرائمری اسکول غلام عباس ڈھتو اور ڈائریکٹر ایلیمنٹری و سکینڈری اسکول ایجوکیشن حامد کریم کی جانب سے ملیر، کورنگی، ضلع وسطی، شرقی، غربی اور جنوبی کے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسرز کے ذریعے تمام سرکاری اسکولوں کے ہیڈ ماسٹرز کو سرکلر جاری کیا ہے۔ سرکلر میں ہدایات دی گئیں کہ وہ اس سرکلر میں موجود 100 کے لگ بھگ سوالات کے ہاں، نہیں، بالکل نہیں، معلوم نہیں، یا بالکل ہاں، میں جوابات دیں۔دستاویزات کے مطابق اس مکتوب میں ’’سندھ میں بچوں کے اسکول ترک کرنے کی وجوہات‘‘ کے تحت سوالنامہ برائے اساتذہ میں لکھا گیا ہے کہ محترم اساتذہ، یہ پرفارما بچوں کے اسکول چھوڑنے کی وجوہات معلوم کرنے کیلئے بھرا جارہا ہے۔ اس پرفارمے میں ضلع، تحصیل، یونین کونسل، علاقہ، دیہی یا شہری، نام، جنس اور اسکول کے علاوہ استاد کا عہدہ وغیرہ کے بعد سوالات کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔ ان سوالات میں پوچھا گیا ہے کہ کوئی بچہ اسکول میں کیوں نہیں پڑھتا، کیا اس کی وجوہات درج ذیل ہیں: اسکول جانا پسند نہ ہونے کی وجہ سے، پڑھنا اچھا نہ لگنے کی وجہ سے، پڑھائی کا شوق نہ ہونے کی وجہ سے، جسمانی معذوری کی وجہ سے، ذہنی معذوری کی وجہ سے، مستقل بیماری کی وجہ سے، دیگر ہم جماعتوں میں عمر میں فرق کی وجہ سے، بالغ ہونے کی وجہ سے، جسمانی طور پر بڑا نظر آنے کی وجہ سے، علاقے میں اسکول نہ ہونے کی وجہ سے، علاقے میں اگلے درجے کا اسکول نہ ہونے کی وجہ سے، علاقے میں موجود اسکول بند ہونے کی وجہ سے، اسکول میں استاد نہ ہونے کی وجہ سے، اسکول میں اساتذہ کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے، اسکول میں خواتین اساتذہ نہ ہونے کی وجہ سے، اسکول میں عمارت نہ ہونے کی وجہ سے، اسکول میں پانی، بجلی یا فرنیچر یا بیت الخلا نہ ہونے کی وجہ سے، لڑکے اور لڑکیوں کا علیحدہ نہ ہونے کی وجہ سے، اسکول کا گھر یا آبادی سے دور ہونا، اسکول تک جانے کی سواری میسر نہ ہونا، اسکول کی فیس زیادہ ہونے کی وجہ سے (سرکاری اسکول میں فیس ہوتی ہی نہیں)، اسکول میں غیر نصابی سرگرمیوں کی فیس زیادہ ہونے کی وجہ سے (کسی سرگرمی کی فیس نہیں ہوتی)، تعلیمی سامان کی فیس زیادہ ہونے کی وجہ سے، استاد کے غیر حاضر رہنے کی وجہ سے، استاد کا رویہ یا پڑھانے کا انداز نا پسند ہونا، نصابی سرگرمیاں نہ ہونے سے، کھیل کود کی بہتر سہولیات یا مقابلوں کا انعقاد نہ ہونا، اسکول میں بڑے بچوں کی مار پیٹ کی وجہ سے، دیگر بچوں سے جھگڑا ہونے کی وجہ سے، اسکول میں بچوں کا مذاق اڑانے، تعلیم مادری زبان میں نہ ہونے کی وجہ سے، جسمانی سزا ملنے کی وجہ سے، کلا س میں بچوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے، ہوم ورک زیادہ ہونے کی وجہ سے، کتابوں کا مواد زیادہ ہونے کی وجہ سے، کتابوں میں موجود مواد روزہ مرہ زندگی سے غیر متعلق ہونے کی وجہ سے، گھریلو کام کاج یا والدہ کی مدد کرنے کی وجہ سے، چھوٹے بہن بھائیوں کی دیکھ بھال کی وجہ سے، گھر میں موجود جانوروں کی دیکھ بھال یا کھیتوں میں کام کرانے کی وجہ سے، قبیلے میں اسکول کی تعلیم حاصل کرنے کی روایت نہ ہونے کی وجہ سے، خاندان میں تعلیم حاصل کرنے کی روایت نہ ہونے کی وجہ سے، علاقے میں تعلیم کا رحجان نہ ہونے کی وجہ، گھر کے سربراہ کا نہ ہونا، گھر میں کمانے والا نہ ہونا، والدین کا تعلیمی اخراجات برداشت نہ کرنے کی وجہ سے، یونیفارم خریدنے کے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے، کاپیاں کتابیں خریداری کے پیسے نہ ہونا، اسکول جانے کیلئے سواری کے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے، والدین کے ساتھ ذریعہ معاش میں مدد کرنے کی وجہ سے، کھیت میں کام، فصل کی کٹائی میں والدین کی مدد کرنے کی وجہ سے، شادی ہوجانے کی وجہ سے یا غربت کی وجہ سے، رہائش کی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوجانے کی وجہ سے، گھر میں روز مرہ کے جھگڑوں کی وجہ سے، پردے کی وجہ سے، گھر سے باہر جانے کی اجازت نہ ملنے کی وجہ سے، گھر میں مذہبی رحجانات کی وجہ سے، علاقے کی مذہبی رہنما کے اسکول کی تعلیم کے خلاف ہونے کی وجہ سے، علاقے میں امن و امان کی صورتحال خراب ہونے کی وجہ سے، اس کے علاوہ اگر کوئی اور وجہ ہو تو وہ بھی تحریر کی جائے۔ مذکورہ سوالات میں سے بعض سوالات ایسے ہیں کہ جو مکمل طور پر این جی اوز کی ترجمانی کرنے والے سوالات ہیں ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈائریکٹریٹ ایجوکیشن کریم آباد میں بعض سرکاری اسکولوں کے ہیڈ ماسٹرز کو بلا کر انہیں وہیں پر مذکورہ پرفارما دیا گیا کہ یہیں پر اس کو فل کرکے دیا جائے۔ ادھر مذکورہ مشکوک سوالنامے کی وجہ سے اسکولوں کے ہیڈ ماسٹرز، اساتذہ اور والدین کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے۔ اس حوالے سے ڈائریکٹر ایلیمنٹری، سکینڈری اینڈ ہائر سکینڈری ایجوکیشن حامد کریم اور ڈائریکٹر پرائمری اسکول غلام عباس ڈھتو کی جانب سے اس پرفارمے سے مکمل لاتعلقی کا اظہار کیا جار ہا ہے۔ اس حوالے سے ڈائریکٹر ایلیمنٹری اسکول حامد کریم سے متعدد بار رابطہ کیا گیا، تاہم انہوں نے فون ریسیو نہیں کیا۔ جبکہ غلام عباس ڈھتو کے پی ایس منیر بھٹی کا کہنا تھا کہ کسی بھی اسکول کو پرفارما نہیں بھیجا گیا، اگر براہ راست سیکریٹری کی جانب سے بھیجا گیا ہو تواس کے بارے میں علم نہیں ہے۔ اس سلسلے میں سیکریٹری ایجوکیشن قاضی شاہد اور وزیر تعلیم سردار شاہ سے رابطے کی کوشش کی گئی تاہم فون ریسیو نہیں کیا گیا۔معلوم رہے کہ ڈائریکٹر پرائمری اسکول غلام عباس ڈھتو کے پاس تین عہدوں کے چارج ہیں، جن میں اسپیشل سیکریٹری ایجوکیشن، سیکرٹری قانون اور ڈایریکٹر اسکول ایجوکیشن پرائمری شامل ہے۔ تین عہدوں کی وجہ سے غلام عباس ڈھتو دفتر کبھی کبھی کبھار ہی آتے ہیں، جس کی وجہ سے پنشن، ریٹائرمنٹ، جی پی فنڈ اور اساتذہ کی تنخواہوں سمیت دیگر کئی معاملات لٹکے پڑے ہیں۔

Comments (0)
Add Comment