محمد قاسم
افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی الیکشن میں کامیابی کیلئے طالبان کی حمایت کیلئے کوشاں ہیں۔ انہوں نے آئندہ برس اپریل میں ہونے والے انتخابات میں حمایت کے بدلے افغان طالبان کو 50 فیصد وزارتیں اور 10 صوبوں کی گورنر شپ دینے کی پیشکش کی ہے۔ ذرائع کے مطابق اس حوالے سے ایک سرکاری وفد طالبان رہنمائوں سے بات چیت کیلئے متحدہ عرب امارات پہنچ گیا ہے۔ تاہم امریکہ، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کی کوششوں کے باوجود افغان طالبان نے افغانستان کے سرکاری وفد کے ساتھ براہ راست ملاقات کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اس حوالے سے طالبان کا موقف ہے کہ بے اختیار حکومتی نمائندوں سے ملنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ بعد ازاں افغان وفد نے دبئی میں امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد، سعودی عرب اور یو اے ای حکام سے ملاقاتیں کیں اور انہیں اپنے منصوبے سے آگاہ کیا۔ ’’امت‘‘ کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی کی جانب سے مشاورتی بورڈ تشکیل دیا گیا تھا، جس کے چیئرمین عبدالسلام رحیمی، افغان صدر کے مشیر بھی ہیں۔ گزشتہ روز کابل میں صدارتی دفتر سے جاری ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ عبدالسلام رحیمی حکومتی وفد کے ساتھ دبئی پہنچ گئے ہیں، جہاں وہ طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات کی کوشش کریں گے اور بین الافغانی مذاکراتی عمل کیلئے اپنا منصوبہ طالبان کو پیش کریں گے۔ کابل میں موجود باوثوق ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ صدر اشرف غنی نے دبئی جانے والے حکومتی وفد کو ہدایت کی ہے کہ وہ طالبان کو 10 صوبوں کی گورنر شپ اور 50 فیصد وزارتیں دینے کی پیشکش اس صورت میں کریں کہ اگر 30 اپریل کو ہونے والے انتخابات میں صدر اشرف غنی کی حمایت کا اعلان کردیں۔ تاہم وفد کو اس وقت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا جب دبئی میں موجود افغان طالبان کے رہنمائوں نے حکومتی وفد سے ملنے سے انکار کر دیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ منگل کے روز بھی اس حوالے سے افغان حکومتی وفد کی کوششیں جاری تھیں۔ دوسری جانب سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور امریکہ کے حکام بھی طالبان رہنمائوں سے کئی مرتبہ درخواست کرچکے ہیں کہ وہ افغان وفد کے ساتھ کچھ دیر بات چیت کرلیں۔ لیکن طالبان نے ان اپیلوں کو مسترد کردیا۔ دبئی میں موجود طالبان رہنمائوں کے قریبی ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ طالبان پہلے ہی واضح کر چکے ہیں کہ وہ اس حکومت کے ساتھ قطعاً مذاکرات نہیں کریں گے جو بے اختیار ہے۔ اگر صدر اشرف غنی کے پاس یہ اختیار ہوتا کہ وہ امریکی فوجیوں کو افغانستان سے نکال سکتے اور بے گناہ قید کئے گئے افراد کو رہا کر سکتے تو طالبان بہت پہلے افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کر لیتے۔ لیکن یہ ایک بے اختیار حکومت ہے، جو افغان عوام پر مسلط کی گئی ہے۔ افغان طالبان نے اپنے ایک مختصر اعلامیے میں کہا ہے کہ یو اے ای میں ہونے والے اجلاس میں کابل انتظامیہ کے وفد سے کوئی ملاقات نہیں کی جائے گی۔ متحدہ عرب امارات میں امریکہ کے ساتھ افغان طالبان کے نمائندوں کی بات چیت جاری ہے۔ اس دوران افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے مسئلے پر گفتگو کی گئی۔ اجلاس میں سعودی عرب اور دیگر ممالک کے نمائندے بھی شریک ہیں۔ طالبان کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ کابل انتظامیہ کے وفد سے ملاقات کا کوئی پلان نہیں ہے۔ اس حوالے سے جو خبریں پھیلائی جارہی ہیں، وہ محض پروپیگنڈا ہے۔ دوسری جانب افغان طالبان کی جانب سے جاری کردہ ایک اور مختصر بیان میں کہا گیا ہے کہ پیر کے روز متحدہ عرب امارات کے شہر ابوظہبی میں افغان طالبان کے نمائندوں نے ایک خصوصی اجلاس میں سعودی عرب، پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے اعلیٰ حکام سے ملاقات کی۔ اس موقع پر افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا اور امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے افغانستان میں جاری مظالم کی روک تھام کیلئے موثر اقدامات پر گفتگو ہوئی جبکہ افغانستان میں امن و امان کے قیام اور تعمیر نو کے حوالے بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ طالبان وفد کی امریکی وزارت خارجہ کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد سے بھی ابتدائی بات چیت ہوئی۔ منگل کے روز بھی مذاکرات کے سلسلے میں اجلاس جاری رہا۔ دوسری جانب ذرائع کا کہنا ہے کہ افغان وفد کی طالبان رہنمائوں سے ملاقات کرانے کیلئے سعودی عرب نے پاکستان سے بھی مدد طلب کرلی ہے۔ جس پر پاکستان نے بھی کوششیں شروع کر دی ہیں۔ تاہم افغان طالبان نے یہ کہہ کر فی الحال ملاقات سے انکار کردیا ہے کہ یو اے ای آنے والا وفد صدر اشرف غنی کے قریبی لوگوں پر مشتمل ہے اور اس میں افغانستان کے دیگر اہم حلقوں کی نمائندگی نہیں ہے۔ جبکہ افغان طالبان کو اپنی شوریٰ کی جانب سے بھی حکومتی وفد کے ساتھ ملاقات کی اجازت نہیں ملی ہے۔