امت رپورٹ
مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے صدر اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو جیل میں اپنے بڑے بھائی اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کے مقابلے میں کہیں زیادہ سہولتیں ملی ہوئی ہیں۔ کوٹ لکھپت جیل کے ذرائع نے بتایا کہ شہباز شریف کو جیل کے سیکورٹی وارڈ میں رکھا گیا ہے۔ یہ وارڈ وی وی آئی پی قیدیوں کے لئے مختص ہے۔ ذرائع کے مطابق سابق وزیر اعلیٰ کا کمرہ صاف ستھرا ہے۔ جس کی روزانہ صفائی ہوتی ہے۔ کمرے میں استعمال کے لئے ایک چھوٹا فریج رکھا ہے۔ ایک بیڈ بھی فراہم کیا گیا ہے۔ جس کی چادریں قریباً روز تبدیل ہوتی ہیں۔ ٹی وی بھی میسر ہے اور اخبارات فراہم کئے جا رہے ہیں۔ جبکہ خدمت گار کے طور پر ایک مشقتی ملا ہوا ہے۔ شنید ہے کہ قومی اسمبلی کے حالیہ اجلاس کے اختتام کے بعد واپسی پر نون لیگی صدر کو دو مشقتی فراہم کر دیئے جائیں گے۔ ذرائع نے مزید بتایا کہ کمرے کے آگے ایک چھوٹا برآمدہ اور اس برآمدے کے ایک طرف کچن اور دوسری طرف واش روم ہے۔ واش روم بھی صاف ستھرا ہے اور اس میں ٹھنڈے گرم پانی کی لائنوں سمیت استعمال کی تمام اشیا موجود ہیں۔ ذرائع کے مطابق برآمدے کے آگے دو کینال پر مشتمل لان ہے، جہاں شہباز شریف واک کرتے ہیں۔ شہباز شریف کو کھانا گھر سے بھیجا جاتا ہے اور اس کھانے کو پہلے جیل کے عملے کا ایک رکن خود کھا کر چیک کرتا ہے۔ ذرائع کے بقول ان تمام سہولتوں کے نتیجے میں سابق وزیر اعلیٰ سکون کی نیند سوتے ہیں۔ اس کے برعکس نواز شریف کی راتیں اڈیالہ جیل میں نہایت کٹھن گزرا کرتی تھیں۔ ذرائع کے مطابق شہباز شریف کے وارڈ میں البتہ مچھر اور بیڈ میں کھٹمل ضرور ہیں۔ اس کی شکایت سابق وزیر اعلیٰ نے جیل حکام سے بھی کی تھی۔ جس پر ان کے کمرے میں اسپرے کرایا گیا، تاہم بیڈ سے کھٹملوں کا خاتمہ نہیں ہو سکا ہے۔ جیل اسٹاف کے ایک اہلکار کے بقول جیلوں کے بیڈز اور میٹرس میں کھٹمل جان بوجھ کر بھی ڈالے جاتے ہیں، تاکہ قیدی کو گھر اور جیل کا فرق محسوس ہو۔ شہباز شریف کے جن فیملی ارکان کے نام جیل کی فہرست میں شامل ہیں، ان سے ہفتے میں ایک بار سابق وزیر اعلیٰ سے ملاقات کرائی جاتی ہے۔ ذرائع کے مطابق شہباز شریف کو جیل میں سہولتیں فراہم کرنے کے ساتھ 24 گھنٹے ان کی خفیہ نگرانی کا عمل بھی جاری ہے۔ وہ سارا دن کیا کرتے ہیں؟ کب واک کے لئے اپنے وارڈ سے نکلتے ہیں؟ کب کھانا کھاتے ہیں؟ کتنی بار واش روم جاتے ہیں؟ یہ سب کچھ مانیٹر ہو رہا ہے۔
ادھر شریف خاندان کے ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ شہباز شریف کو جیل میں بہتر سہولتیں میسر ہیں۔ اس وجہ سے ہی سابق وزیر اعلیٰ نے اب تک نہ قومی اسمبلی کے فلور اور نہ ہی میڈیا میں اس حوالے سے کوئی شکایت کی ہے۔ البتہ نیب کے زیر ریمانڈ ہونے کے دوران شہباز شریف نے بغیر روشن دان کے تنگ و تاریک کمرے کی شکایت ضرور کی تھی۔ تاہم ان کے میڈیکل چیک اپ کے بعد یہ شکایت بھی دور کر دی گئی تھی۔ خاندانی ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ ایک بزرگ نے شہباز شریف کو جیل میں کثرت سے آیت کریمہ کا ورد کرنے کی تاکید کی ہے اور ساتھ ہی قرآن پاک میں موجود ایک اور دعا بھی پڑھنے کو کہا ہے۔ جس پر سابق وزیر اعلیٰ پابندی سے عمل کر رہے ہیں۔ آیت کریمہ مشکل حالات سے نکلنے کے لئے ایک بہترین دعا ہے۔
لاہور میں موجود ذرائع کا کہنا ہے کہ صوبہ پنجاب بالخصوص لاہور پولیس، جیل خانہ جات، ایجوکیشن، سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ، صحت کے محکموں اور بیورو کریسی میں 90 فیصد کے قریب لوگ شہباز شریف کی وزارت اعلیٰ کے دور کے بھرتی کردہ ہیں۔ لہٰذا ان محکموں اور اداروں میں اب بھی مسلم لیگ ’’ن‘‘ کا خاصا اثرو رسوخ پایا جاتا ہے۔ شہباز شریف کو کوٹ لکھپت جیل میں حاصل سہولتوں میں اس فیکٹر کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ جبکہ اسلام آباد میں موجود ذرائع ان سہولتوں کا سیاسی پہلو بھی بیان کرتے ہیں۔ ان ذرائع کا کہنا ہے کہ اڈیالہ جیل میں بالخصوص قید کے ابتدائی دنوں میں نواز شریف نے جو سختیاں برداشت کیں، اس کے لئے زیادہ تر احکامات نگراں حکومت کو اوپر کی سطح سے آیا کرتے تھے۔ اگر شہباز شریف کے خلاف بھی اوپر کی سطح کے لوگ متحرک ہو جائیں تو پھر صوبائی انتظامیہ کچھ نہیں کر سکتی۔ شہباز شریف کو جیل میں حاصل سہولتیں اور قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں آسانی کے ساتھ ملنے والے پروڈکشن آرڈر سے پنجاب میں مستقبل کی سیاست کا بھی اندازہ ہوتا ہے، جہاں بعض حلقے صوبے کے موجودہ وزیر اعلیٰ کی کارکردگی سے زیادہ خوش نہیں ہیں۔
ایک اہم ادارے کے سابق عہدیدار کے مطابق پنجاب Gravity of Power ہے۔ اس کی گورننس خراب ہو جائے تو پورا ملک متاثر ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ملک کا یہ سب سے بڑا صوبہ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار سے چلایا نہیں جا رہا ہے۔ جبکہ مسئلہ یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان، بزدار کو تبدیل کرنے پر تیار نہیں اور وہ بزدار کو وسیم اکرم پلس قرار دیتے ہیں۔ عہدیدار کے بقول وزیر اعظم کی سوچ کے برعکس بزدار کی کارکردگی سے غیر مطمئن حلقے انہیں منصور اختر سمجھتے ہیں۔ کرکٹ کی دنیا میں وسیم اکرم کی طرح منصور اختر بھی عمران خان کی دریافت تھے۔ لیکن ڈومیسٹک کرکٹ میں شاندار ریکارڈ رکھنے والے منصور اختر قومی سطح کی کرکٹ میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکے۔ حالانکہ اس وقت کے کپتان عمران خان کی طرف سے انہیں متعدد مواقع دیئے جاتے رہے۔ عہدیدار کا کہنا تھا کہ اگر پنجاب حکومت چلانے میں پی ٹی آئی مسلسل ناکام رہتی ہے تو پھر، دوسری پارٹیوں میں مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے صدر شہباز شریف کے علاوہ صوبہ چلانے کے لئے کوئی اور بہتر متبادل موجود نہیں۔ عہدیدار کے بقول بعض طاقتور حلقے جو کچھ عرصہ پہلے تک شہباز شریف کا نام سننا گوارہ نہیں کرتے تھے، اب شہباز شریف کے لئے ان کے دلوں میں نرم گوشہ پیدا ہو رہا ہے۔ اور وہ اعتراف کرنے لگے ہیں کہ جتنا عرصہ بھی شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ رہے، ان کی گورننس مثالی تھی۔ حتیٰ کہ اپنے آخری ادوار میں بیمار ہونے کے باوجود انہوں نے کسی صحت مند شخص سے زیادہ محنت سے کام کیا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اگر اتحادی پارٹیوں کو ہٹا دیا جائے تو پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف کو مسلم لیگ ’’ن‘‘ پر معمولی برتری ہے۔ حکمران جماعت کے صوبائی ایوان میں 180 جبکہ نون لیگ کے ارکان کی تعداد 167 ہے۔
مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے اندرونی ذرائع بھی یہ اعتراف کرتے ہیں کہ نواز شریف کے مقابلے میں شہباز شریف کو جیل میں زیادہ سہولتیں حاصل ہیں۔ان ذرائع کے بقول خاص طور پر اڈیالہ جیل میں سابق وزیر اعظم کے ابتدائی ایام بہت کٹھن گزرے تھے۔ اس کی تفصیل میڈیا پر آ چکی ہے کہ شروع کے دنوں میں کس طرح نواز شریف کو زمین پر سونا پڑا اور غلیظ ترین واش روم استعمال کرنا پڑا تھا۔ جبکہ جولائی کے گرم ترین دنوں میں انہیں ایک ناکارہ پنکھا فراہم کیا گیا تھا۔ ان ذرائع کے بقول سخت گرمی و حبس کے سبب زیادہ پسینہ بہنے سے نواز شریف کے جسم میں پانی کی کمی ہوئی اور وہ ڈی ہائیڈریشن کا شکار ہوئے، اس کے نتیجے میں میاں صاحب کاوزن پندرہ سے اٹھارہ کلو کم ہو گیا تھا۔ تاہم شہباز شریف کی جانب سے نگراں وزیر اعظم ناصر الملک کو لکھے جانے والے خط کے بعد نواز شریف کو جیل میں کسی حد تک سہولتیں فراہم کر دی گئی تھیں۔ اڈیالہ جیل کا اسٹاف بھی نواز شریف کے ان کٹھن دنوں کا عینی شاہد ہے۔ تاہم اسٹاف کے ایک ایسے ہی رکن نے بتایا کہ شروع میں ضروری سہولیات کی عدم دستیابی کے باوجود میاں صاحب نے کبھی بھی جیل کا کھانا نہیں کھایا تھا۔ کھانا ان کے لئے زیادہ تر لیگی رہنما چوہدری تنویر اور طارق فضل چوہدری کے گھر سے آیا کرتا تھا۔ جیل اسٹاف کے رکن کے بقول مریم نواز بھی گھر کا کھانا کھایا کرتی تھیں۔ ان کے لئے زیادہ تر خصوصی لنچ بنا کر بھیجا جاتا تھا۔ تاہم رات کے کھانے میں وہ عموماً برگر منگواتیں۔ جیل اسٹاف کا ایک رکن، جو ماضی میں ایان علی کو بھی بازار سے برگر لا کر دیا کرتا تھا، وہی مریم نواز کے لئے بھی یہ خدمت انجام دیتا رہا۔