فرشتوں کی عجیب دنیا

سائے کا فرشتہ
حضرت سُدِیؒ بیان فرماتے ہیں: جب حضرت ابراہیمؑ سے آگ کو بجھا دیا گیا تھا تو لوگوں نے حضرت ابراہیمؑ اور ایک دوسرے آدمی کو دیکھا، جس کی گود میں حضرت ابراہیمؑ نے اپنا سر مبارک رکھا ہوا تھا اور وہ آپؑ کے چہرئہ اقدس پر اپنا ہاتھ پھیر رہاتھا۔ یہ شخص سایہ کا فرشتہ (ملک الظل) تھا۔ (ابن جریر)
رِحموں کا فرشتہ
اس کے سپرد کونسے کام ہیں؟
(حدیث) حضرت انسؓ فرماتے ہیں: رسول خداؐ نے ارشاد فرمایا:
(ترجمہ) حق تعالیٰ نے (ہر) رحم پر ایک فرشتہ مقرر کر رکھا ہے (جو رب تعالیٰ سے) پوچھتا ہے: اے رب! یہ قطرہ رہے گا یا جما ہوا خون بنے گا یا گوشت کی بوٹی بنے گی (یعنی اس کی تخلیق مکمل ہوگی یا نہ ہوگی) جب رب تعالیٰ یہ ارادہ فرماتے ہیں کہ اس نطفے کی تخلیق مکمل فرمائیں تو وہ (فرشتہ) عرض کرتا ہے بد نجت ہوگا یا سعادت مند، مذکر ہوگا یا مونث، اس کا رزق کیا اور کتنا ہوگا اور اس کی موت کب آئے گی؟ یہ سب کچھ اس وقت لکھ دیتا ہے، جب وہ اپنے شکم مادر میں ہوتا ہے۔ (مسند احمد، بخاری، مسلم)
مزید ذمہ داریاں:
(حدیث) حضرت ابن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ رسول اکرمؐ نے ارشاد فرمایا:
(ترجمہ) نطفہ چالیس روز تک رحم میں اپنی حالت میں رہتا ہے (کسی اورحالت میں) تبدیل نہیں ہوتا۔ جب چالیس روز گزر جاتے ہیں تو جما ہوا خون بن جاتا ہے، پھر اسی طرح (چالیس روز میں) گوشت کی بوٹی بن جاتی ہے، پھر اسی طرح (یعنی چالیس روز میں) ہڈیاں (پیدا) ہو جاتی ہیں۔ جب حق تعالیٰ انسان کے ڈھانچے کو درست کرتے ہیں تو اس کے پاس ایک فرشتہ کو بھیجتے ہیں تو وہ عرض کرتا ہے: اے پرور دگار (یہ) مرد ہوگا یا عورت، بدبخت ہوگا یا سعادت مند، قدوقامت میں طویل ہوگا یا پست قد، طاقت کے اعتبار سے کمزور ہوگا یا زائد؟ اس کی موت کب ہوگی؟ یہ تندرست ہوگا یا بیمار؟ تو یہ فرشتہ اس کی اطلاع پا کر یہ سب کچھ لکھ دیتا ہے۔ (مسند احمد، درمنثور)
(فائدہ) انسان کے متعلق مذکورہ حدیث میں مذکورہ باتیں حضرت انسان کی پیدائش سے بہت پہلے لوح محفوظ میں لکھی جا چکی ہوتی ہیں، لیکن ہر انسان سے متعلقہ فرشتے کو اس کے احوال کا علم بتانے کیلئے پیدائش کے وقت اس کا اظہار کر دیا جاتا ہے اور یہ سعادت مندی یا بد بختی انسان کے اپنے اعمال کی وجہ سے ہوتی ہے، وہ خدا تعالیٰ کے لکھ دینے سے مجبور محض نہیں ہوتا، حق تعالیٰ نے اپنے علم ازلی سے انسان کے متعلق وہ سب احوال لوح محفوظ کے سپر د فرمائے ہیں، جن کو انسان اپنے اختیار سے کرنے والا ہے اور وہ کام بھی سپرد فرمائے ہیں، جو انسان خدا کے حکم سے کرنے والا ہے اور اس کے اپنے بس میں نہیں ہوتے یا انسان کچھ کرنا چاہتا ہے اور کچھ اور جاتا ہے۔ (شرح عقیدہ طحاویہ) (جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment