قسط 24
امام زہریؒ صحابی و خادم رسولؐ سیدنا انس بن مالکؓ، سالم بن عبد اللہ بن عمروؓ، سائب بن یزیدؓ، سہل بن سعد الساعدیؓ، ابن عمرؓ جیسے بزرگ صحابہ کے شاگر د ہیں۔ امام مالکؒ، زید بن اسلمؒ، سعید بن عبد العزیزؒ، سفیان بن عیینہؒ، امام اوزاعیؒ، لیث بن سعدؒ، امام مغازی محمد بن اسحاقؒ، معمر بن راشدؒ اور ہشام بن عروہؒ جیسے ائمۂ دہر ان کے حلقہ تلامذہ میں ہیں اور اس پر فخر محسوس کرتے ہیں۔
یہ ایک سادہ سا گھر ہے۔ بنو امیہ کا شہزادہ جو خلافت کا بار اٹھانے سے قبل نخروں سے پہچانا جاتا، آج چھوٹے سے جھونپڑے میں، دوستوں کے ہمراہ بیٹھا ہے۔ گفتگو ایک نڈر انسان بارے چل رہی ہے، عمرؒ اپنے ساتھیوں سے کہہ رہے ہیں: ’’امام زہریؒ کے پاس بیٹھا کرو، اس لئے کہ ان سے بڑھ کر سنت کا کوئی عالم نہیں ہے۔‘‘ امام مالکؒ فرماتے ہیں کہ مدینہ میں ایک ہی تو ہے، جو محدث اور فقیہ ہے، یعنی ابن شہاب زہری۔ زہری جب دنیا سے گئے تو ان کا ہم پایہ اس وقت پوری دھرتی پہ موجود نہیں تھا۔
حضرت ہدبہ بن خالدؒ:
مشہور محدث ہدبہ بن خالد کو خلیفہ بغداد مامون رشید نے اپنے دسترخوان پر مدعو کیا۔ کھانے سے فارغ ہونے کے بعد جب دسترخوان اٹھایا گیا تو طعام کے چند دانے جو زمین پر گر گئے تھے، محدث موصوف نے اٹھا اٹھا کر کھانا شروع کر دیا۔
مامون نے حیران ہو کر کہا کہ: ’’اے شیخ!کیا آپ ابھی آسودہ نہیں ہوئے؟‘‘
آپؒ نے فرمایا: ’’کیوں نہیں! لیکن مجھ سے ’’حماد بن سلمہؒ‘‘ نے ایک حدیث فرمائی ہے کہ ’’جو شخص دسترخوان سے نیچے گرے ہوئے دانوں کو چن چن کر کھائے گا، وہ مفلسی اور فاقہ کشی سے بے خوف ہو جائے گا۔ ‘‘ اسی حدیث شریف پر عمل کر رہا ہوں۔ ‘‘
یہ سن کر مامون بے حد متاثر ہوا اور اپنے ایک خادم کی طرف اشارہ کیا تو وہ اچانک ایک ہزار دینار ایک رومال میں باندھ کر لایا۔ مامون نے اس کو ہدبہ بن خالدؒ کی خدمت میں بطور نذرانہ پیش کر دیا۔ تو ہدبہ بن خالد نے فرمایا:
’’یہ اسی حدیث شریف پر عمل کرنے کی برکت ہے۔‘‘ (روحانی حکایات، ج: 1، ص: 63)
امام اسحاق بن راہویہؒ:
امام اسحاق بن راہویہؒ کا حافظہ غیر معمولی اور یادداشت حیرت انگیز تھی۔ ابن حبان، خطیب بغدادی اور ابن عسا کر وغیرہ نے حافظہ میں ان کی جامعیت کا اعتراف کیا ہے۔
علامہ ابن حزیمہؒ فرماتے ہیں کہ اگر اسحاقؒ تابعین کے عہد میں ہوتے تو وہ لوگ بھی ان کے حافظے کے معترف ہوتے۔
قتیبہ بن سعید کا بیان ہے کہ خراساں کے نامور حفاظ میں اسحاق بن راہویہؒ اور ان کے بعد امام دارمیؒ اور امام بخاریؒ تھے۔
ابویحییٰ شعرانیؒ کہتے ہیں کہ میں نے ان کے ہاتھ میں کبھی کتاب نہیں دیکھی۔ وہ ہمیشہ یادداشت سے حدیثیں بیان کیا کرتے تھے۔
ان کا خود بیان ہے کہ میں نے کبھی کوئی چیز قلم بند نہیں کی۔ جب بھی مجھ سے کوئی حدیث بیان کی گئی، میں نے اسے یاد کر لیا۔ میں نے کسی محدث سے کوئی حدیث کبھی دوبارہ بیان کرنے کے لئے نہیں کہا۔ یہ کہنے کے بعد انہوں نے پوچھا: ’’کیا تم لوگوں کو اس پر تعجب ہے؟‘‘
لوگوں نے کہا: جی ہاں !حیرت انگیز بات ہے۔
انہوں نے کہا: میں جس چیز کو ایک مرتبہ سن لیتا ہوں، وہ مجھے یاد ہو جاتی ہے۔ ستر ہزار سے زیادہ حدیثیں ہر وقت میری نگاہ کے سامنے رہتی ہیں اور میں ان کے متعلق بتا سکتا ہوں کہ وہ کتاب میں کس جگہ ہیں۔ (جاری ہے)