پیر ذوالفقار نقشبندی صاحب نے ایک واقعہ بیان فرمایا:
’’ایک شخص تھا جو بڑا امیر و کبیر تھا، بہت بڑا اس کا کاروبار تھا، جس میں درجنوں ملازمین تھے، اس کا گھر بھی کافی بڑا تھا، اس میں بھی نوکر چاکر کام کرتے تھے۔
دن بھر وہ اپنے بزنس کی سرگرمیوں میں مصروف رہتا، شام کو گھر واپس آتا، اس کا جو اپنا بیڈ روم تھا، اس کی ایک جوان العمر لڑکی صفائی کرتی تھی، یہ لڑکی اس بزنس مین کی ملازمہ تھی۔
ایک دن وہ اتفاق سے وقت سے پہلے گھر آگیا، جب یہ اپنے کمرے میں آیا اور نوجوان لڑکی کو صفائی کرتے ہوئے دیکھا۔ بس شیطان نے اس کے دل میں خیال ڈالا کہ میں اس لڑکی کو روک لوں تو اس کی آواز کوئی نہیں سنے گا۔ اگر یہ میری کسی سے شکایت بھی کرے گی تو کوئی اس کی بات کو نہیں مانے گا۔ میں تو پورے پولیس اسٹیشن خرید سکتا ہوں، ملازمین سب میری بات مانیں گے۔
لڑکی نے دیکھا کہ مالک وقت سے پہلے آگئے ہیں تو وہ جلدی سے جانا چاہا تو مالک نے فوراً ایک زوردار آواز میں کہا کہ ٹھہر جاؤ۔ لڑکی مالک کے تیور دیکھ کر گھبرا گئی۔
مالک نے کہا کہ سب کھڑکیاں دروازے بند کردو۔
اب لڑکی پریشان کہ میں کروں تو کیا کروں، لیکن اس کے دل تقویٰ تھا خدا تعالیٰ کا خوف تھا۔ اس کے آنسو بہنے لگے اور خدا سے دعا بھی کرنے لگی کہ وہ اسے نجات عطا فرمائے۔
چنانچہ اس نے ایک ایک کر کے سب دروازے اور کھڑکیاں بند کرنا شروع کیں، اس میں کافی دیر ہوگئی، جب مالک کے بیڈ روم میں پہنچنے میں اس نے کافی دیر لگا دی تو مالک نے ڈانٹ کر کہا کتنی دیر ہوگئی؟ اب تک دروازے کھڑکیاں بند نہیں کیں اور تو میرے پاس آئی نہیں؟
اس لڑکی نے روتے ہوئے کہا کہ مالک! میں نے سارے دروازے بند کر دیئے، ساری کھڑکیاں بند کر دیں، مگر ایک کھڑکی کو بہت دیر سے بند کرنے کی کوشش کر رہی ہوں، لیکن مجھ سے بند نہیں ہوپا رہی ہے۔
مالک نے غصے سے کہا کہ وہ کونسی کھڑکی ہے، جو تجھ سے بند نہیں ہو رہی ہے؟ تو لڑکی نے کہا کہ میرے مالک! جن کھڑکیوں سے انسان دیکھتے ہیں، جن کھڑکیوں سے مخلوق دیکھتی ہے، میں نے وہ ساری کھڑکیاں بند کر دیں، لیکن جس کھڑکی سے رب العالمین دیکھتا ہے، اس کھڑکی کو بہت دیر سے بند کرنے کی کوشش کر رہی ہوں، لیکن مجھ سے بند نہیں ہو پا رہی ہے، اگر آپ سے بند ہو سکتی ہے تو آکر بند کر دیں۔
شیطان کی گرفت میں آنے والے سیٹھ کو فوراً بات سمجھ میں آ گئی کہ واقعی میں اپنے گناہوں کو انسانوں سے چھپا سکتا ہوں، لیکن رب العالمین سے نہیں چھپا سکتا۔ وہ اٹھا، جلدی سے وضو کیا، نماز پڑھی اور خدا سے معافی مانگنے لگا۔
ہم میں سے ہر شخص غور کرے، کوئی اس کھڑکی کو بند کر سکتا ہے، جس سے رب العالمین دیکھتا ہے، تو پھر ہم جرأت کے ساتھ گناہ کیوں کرتے ہیں؟ تو پھر ڈھٹائی کے ساتھ گناہ کیوں کرتے ہیں؟ وقتی طور پر نفس کا غالب آجانا یہ الگ بات ہے، لیکن ہم گناہ کرتے ہیں اور گناہ پر گناہ کرتے جاتے ہیں، عادت ہوتی ہے ہمارے گناہ کرنے کی۔ ہم گناہ کو مکھی کی طرح سمجھتے ہیں، پھونک ماری، یوں اڑا دی۔ اسی لئے نا کہ ہم کو اس کھڑکی کا یقین نہیں ہے۔
خدا پاک ہم سب کو یقین کی دولت سے مالامال فرمائے اور گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
(خطبات فقیر)