خطابت اور فصاحت کی دنیا میں حضرت ثابت بن قیسؓ کا بہت بڑا نام ہے۔ جس سال رسول اقدسؐ کی خدمت میں مختلف قبائل کے وفود آنے شروع ہوئے، ان میں بنو تمیم کا ایک وفد آیا، جس میں ان کا مشہور و معروف خطیب عطارد بن حاجب بن زرارہ بھی تھا، جس پہ انہیں بڑا ناز تھا۔ تمیمی اٹھے، کہنے لگے یا محمد (ﷺ) ہم آپ کے پاس اس لیے آئے ہیں تاکہ ہم آپ کے سامنے قومی وقبائلی فخر و مباہات کا مظاہرہ کریں۔ آپ ہمارے خطیب اور شاعر کو اجازت دیں تاکہ وہ اپنے اپنے فن کا مظاہرہ کریں۔ کیسے کیسے جوہر ہم نے چھپا رکھے ہیں۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا: ’’میں آپ کے خطیب کو اجازت دیتا ہوں۔ وہ اپنی خطابت کے جوہر دکھلائے، جو کہنا چاہے کہے۔‘‘
عطارد بن حاجب زرارہ کھڑا ہوا اور یوں گویا ہوا:
’’تمام تر تعریف خدا کے لیے جس کا ہم پر بڑا فضل و کرم اور وہ واقعی ہر قسم کی تعریف کا اہل ہے۔ جس نے ہمیں بادشاہ بنایا۔ ہمیں بہت مال و دولت عطا کیا۔ ہم اپنے مال سے اچھے کام سر انجام دیتے ہیں۔ اس نے ہمیں اہلِ مشرق میں معزز بنایا، ہم تعداد میں سب سے بڑھ کر اور تیاری میں سب پہ فوقیت رکھنے والے ہیں۔ لوگوں میں ہم جیسا بھلا کون ہے؟ ہم سا ہو تو سامنے آئے۔ کیا ہم لوگوں کے سردار اور فضل و شرف کے اعتبار سے ان میں سے سب بڑھ کر نہیں؟ جو ہمارے مقابلے میں فخر کا اظہار کرتا ہے، وہ اپنی افرادی قوت کا ہماری افرادی قوت سے موازنہ کر کے دیکھ لے۔ باتیں تو بہت ہو سکتی ہیں، لیکن ہمیں اندیشہ ہے کہ اپنی تمام خوبیوں کا تذکرہ کیا تو بہت بڑھ جائے گی۔ لوگ ہمارے مقام و مرتبے اور طور و اطوار کو جانتے ہیں۔ میں اسی پر اکتفا کرتا ہوں۔ کوئی ہے تو وہ ہم جیسی گفتگو اور ہم سے بہتر کارنامہ پیش کرے۔‘‘
رسول اقدسؐ نے اپنے خطیب اور شہسوار حضرت ثابت بن قیسؓ سے فرمایا: ’’اے ثابت ذرا اٹھو، اس شخص کے خطاب کا اپنے خطیبانہ انداز میں جواب دو۔‘‘
حضرت ثابتؓ اٹھے اور عطارد کا یوں جواب دیا:
’’سب تعریفیں اس خدا کے لیے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔ ان میں اپنا حکم نافذ کیا۔ اس کا علم اس کی کرسی کو اپنے احاطے میں لیے ہوئے، ہمیشہ ہر چیز اسی کے فضل وکرم سے معرض وجود میں آتی ہے۔ پھر اس نے اپنی قدرت کاملہ سے ہمیں بادشاہ بنا دیا۔ اس نے اپنے بہتر بندوں میں سے ایک رسول کا انتخاب کیا جو حسب و نسب کے اعتبار سے معزز و افضل ہیں۔ اس پر ایک کتاب نازل کی۔ اسے اپنی مخلوق کا امین قرار دیا۔ وہ تمام جہانوں میں حق تعالیٰ کا بہترین انتخاب ٹھہرے، پھر آپؐ نے لوگوں کو ایمان کی دعوت دی۔ رسول اکرمؐ پر آپ کی قوم اور رشتہ دار مہاجرین ایمان لائے۔ آپ خاندانی لحاظ سے تمام لوگوں سے بڑھ کر عزت والے۔ سب لوگوں سے بڑھ کر حسین و جمیل اور سب لوگوں سے بہت کارنامے سر انجام دینے والے ہیں۔ پھر آپؐ نے سب سے پہلے حق تعالیٰ کے احکامات کو قبول کیا۔ رسول اکرمؐ نے جب ہمیں دعوت دی تو ہم نے دل و جان سے آپ کی دعوت کو قبول کیا۔ ہم خدا کے انصار اور اس کے رسولؐ کے وزیر ٹھہرے۔ آپؐ لوگوں سے نبرد آزما ہوئے، یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں۔ جو خدا اور اس کے رسولؐ پر ایمان لے آیا، اس نے اپنے مال اور جان کو محفوظ کر لیا اور جس نے انکار کیا تو ہم نے ہمیشہ اس سے خدا کے لیے جہاد کیا۔ اسے قتل کرنا ہمارے لیے آسان تھا۔ بس یہی میری بات ہے۔ میں خدا سے اہل ِ ایمان مردوں اور عورتوں کے لیے بخشش طلب کرتا ہوں۔ والسلام علیکم۔‘‘
حکیمانہ اسلوبِ گفتگو، شفگتہ گوئی اور سیاسی انداز اپناتے ہوئے بنو تمیم کے خطاب کا حضرت ثابت بن قیسؓ نے جواب دیا تو وہ انگشت بدنداں رہ گیا۔ حضرت ثابتؓ خطاب کے دوران یوں دکھائی دیتے تھے، جیسے ان صحفیوں کو بغیر کسی تکلیف کے پڑھتے جا رہے ہوں، جو گھروں میں نور ہدایت کو پھیلانے کا باعث بن رہے ہوں۔
پھر نبی کریمؐ نے بنوتمیم کے شاعر کو اجازت دی تو زبرقان بن بدر اٹھا۔ ایک عمدہ قصیدہ پیش کیا۔ اس کے جواب میں حضرت حسان بن ثابتؓ اٹھے۔ انہوں نے زبرقان کے قصیدے کا منہ توڑ جواب دیا اور اس میں اسلام کا ایسے اسلوب میں تعارف کرایا کہ بنو تمیم انگشت بدنداں دیکھتے رہ گئے۔
اقرع بن حابس تمیمی کہتے ہیں کہ بخدا مجھے معلوم نہیں کہ یہ اصل معاملہ کیا ہے؟ ہمارے خطیب نے گفتگو کی تو ان کے خطیب نے اس سے بہت عمدہ اور اچھا انداز اپنایا۔ ہمارے شاعر نے اپنا کلام پیش کیا تو ان کا شاعر اس سے بازی لے گیا۔
پھر اقرع حابس تمیمی رسول اکرمؐ کے قریب ہوئے اور برملا یہ اقرار کیا:
’’میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں اور آپ واقعی خدا کے رسول ہیں۔‘‘
نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا: ’’اسلام قبول کرنے سے پہلے جو کچھ بھی تمہاری طرف سے سرزد ہوا، وہ تمہیں کوئی نقصان نہیں دے گا۔ پھر آپ نے انہیں تالیف ِ قلب کی خاطر نقدی اور لباس کی صورت میں عطیات دیئے۔ یہ کوئی انعام نہیں تھا، صرف دل جوئی کی ایک عمدہ صورت تھی۔
حضرت ثابت بن قیسؓ قبائل کے وفود کو نبی کریمؐ کے سامنے پیش کرتے اور آپ کے پاس ہی رہتے۔ جب آپؐ انہیں حکم دیتے تو یہ وفود سے خطاب کرتے۔ ایک دفعہ رسول اقدسؐ نے انہیں مسیلمہ کذاب کو جواب دینے کا حکم دیا۔
حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ رسول اقدسؐ کے دور میں مسیلمہ کذاب اپنی قوم کے لائو لشکر کے ساتھ مدینہ منورہ آیا۔ اس نے یہ تجویز پیش کی کہ اگر محمد (ﷺ) مجھے اپنے بعد اپنا نائب نامزد کردیں تو میں آپ کی پیروی اختیار کرلوں گا۔ نبی کریمؐ حضرت ثابت بن قیسؓ کے ہمراہ تشریف لائے۔ آپؐ نے اپنے ہاتھ میں ایک چھڑی پکڑی ہوئی تھی۔ مسیلمہ اور اس کے ساتھیوں کے سامنے آکر کھڑے ہوئے۔ آپ نے مسیلمہ کو مخاطب کر کے یہ ارشاد فرمایا کہ اگر تم مجھ سے یہ چھڑی مانگو تو میں تجھے یہ بھی نہیں دوں گا۔ تو خدا کے حکم سے بچ کر کہیں نہیں جا سکتا۔ اگر تو نے انحراف کیا تو خدا تیری جڑیں کاٹ کر رکھ دے گا۔ میں تجھے بعینہ اسی طرح دیکھ رہا ہوں، جیسے میں نے خواب میں دیکھا: ’’میری طرف سے یہ ثابت بن قیس تیری باتوں کا جواب دیں گے۔‘‘ یہ کہہ کر آپ تشریف لے گئے۔
حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں، میں نے نبی کریمؐ کی اس بات کے بارے میں دریافت کیا کہ ’’میں نے تجھے ویسے ہی دیکھا جیسے مجھے خواب میں دکھایا گیا تھا۔‘‘ حضرت ابو ہریرہؓ نے مجھے بتایا: ’’رسول اقدسؐ نے ارشاد فرمایا: ’’میں سویا ہوا تھا، میں نے اپنے ہاتھ میں سونے کے دو کنگن دیکھے۔ یہ دیکھ کر مجھے بڑا افسوس ہوا، مجھے خواب ہی میں وحی کی گئی کہ میں ان کنگنوں پر پھونک ماروں، میں نے پھونک ماری تو وہ دونوں اڑ گئے۔ میں نے اس کی تعبیر یہ کی کہ میرے بعد دو کذاب منظر عام پر آئیں گے، جو جھوٹی نبوت کا دعویٰ کریں گے۔ ایک ان میں صنعائے یمن کا رہنے والا اسود عنسی اور دوسرا یمامہ کا رہائشی مسیلمہ کذاب ہوگا۔‘‘