سرفروش

قسط نمبر 204
عباس ثاقب
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جس نے نوجوانی کے امنگوں بھرے دور میں اپنی جان خطرے میں ڈال دی۔ صرف اس لئے کہ وطن عزیز پاکستان کو دشمنوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔ جمال صاحب کراچی کے قدیم رہائشی ہیں اور ان دنوں گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ عمر کے آخری حصے میں بصد اصرار اس بات پر آمادہ ہوئے کہ اپنی زندگی کے تہلکہ خیز گوشوں سے پردہ اٹھائیں۔ ان کا اصل نام کچھ اور ہے۔ بعض نا گزیر اسباب کی بنا پر انہیں ’’جمال‘‘ کا فرضی نام دیا گیا ہے۔ اس کہانی کو ڈرامائی شکل دینے کیلئے کچھ زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی۔ کیونکہ یہ حقیقی ایڈوینچر کسی سنسنی خیز ناول سے زیادہ دلچسپ ہے۔ جمال صاحب کی کہانی ان لوگوں کیلئے دعوتِ فکر ہے، جنہیں یہ ملک بغیر کسی جد و جہد اور محنت کے ملا اور انہوں نے اس کی قدر کرنے کے بجائے اسی سے شکایات شروع کر دیں۔ امید ہے کہ قسط وار پیش کی جانے والی یہ کہانی ’’امت‘‘ کے خوش نظر قارئین کی پذیرائی حاصل کرے گی۔ (ادارہ)
میں نے خوش ہوکر کہا۔ ’’بہت اچھی تجویز ہے چھوٹے بھائی۔ ہمیں ایسے ہی قابلِ اعتماد آدمی کی مدد درکار ہے۔ ویسے بھی ان دونوں بچیوں کو کشمیر بھجوانے کے لیے ہمیں ان کا تعاون درکار ہوگا‘‘۔
ظہیر نے میری ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا۔ ’’ ٹھیک ہے، تو پھر یہاں سے سیدھے گھمر منڈی چلتے ہیں۔ ہم یہ دو راتیں وہیں گزار لیں گے، یا پھر منڈی گوبند گڑھ میں میرے ٹھکانے پر رہ لیں گے‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’چلو وہیں چل کر کوئی فیصلہ کریں گے۔ ہوسکتا ہے یاسر بھٹ سے کوئی اور صلاح مل جائے۔ مجھے راستے کا کچھ کچھ اندازہ ہے، لیکن بہتر ہے کہ تم رہنمائی کرتے جاؤ‘‘۔
ظہیر نے اثبات میں سر ہلاکر ہامی بھرلی۔ وہ میری توقع سے بہتر گائیڈ ثابت ہوا۔ ہم مختصر راستوں سے گزرتے ہوئے لگ بھگ ایک گھنٹے میں جی ٹی روڈ پر چڑھ گئے اور متوازن رفتار سے چلتے ہوئے مزید پونے دو گھنٹے کے بعد لدھیانہ کی حدود میں داخل ہوگئے۔ مجھے راستہ پہچاننے میں مشکل نہیں ہوئی اور میں نے اپنی جیپ گھمر منڈی میں یاسر بھٹ کے اڈے کے عین سامنے لے جاکر روک دی۔
مغرب کا وقت گزر جانے کی وجہ سے دیگر آڑھت خانوں کی طرح یاسر بھٹ کے ٹھیّے پر بھی تالا لگا ہوا تھا۔ لیکن ظہیر مجھے ساتھ لیے بغلی سیڑھیاں چڑھ کر سیدھا یاسر بھٹ کے کمرے کے سامنے جا پہنچا۔ دباؤ ڈالتے ہی دروازہ کھل گیا۔ سامنے والے پلنگ پر یاسر بھٹ بستر پر نیم دراز ہوکر ایک کتاب پڑھ رہا تھا۔ ہمیں کمرے میں داخل ہوتے دیکھ کر وہ چونکا اور پھر ظہیر کے چہرے پر نظر پڑتے ہی اس کے ہونٹوں پر محبت بھری مسکراہٹ نمودار ہوئی اور وہ جلد ی سے بستر چھوڑ کر پلنگ سے اتر آیا۔
اتنی دیر میں ظہیر اس کے پاس پہنچ چکا تھا۔ وہ دونوں والہانہ انداز میں ایک دوسرے سے گلے لگ گئے۔ ’’شکر ہے، تم خیر خیریت سے واپس آگئے۔ تمیاری سلامتی کے حوالے سے دل کو دھڑکا ہی لگا رہتا ہے‘‘۔
ظہیر نے اس کی پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے کہا۔ ’’یار یاسر بھائی، ایک تو میں تمہاری اس اندیشے بازی سے بہت تنگ ہوں۔ سیدھی سی بات ہے بھیا، ہم تو جان قربان کرنے کی نیت سے ہی گھر سے نکلے ہوئے ہیں۔ جب بلاو ا آگیا، خوشی خوشی اپنے پیارے رب کے پاس چلے جائیں گے!‘‘۔
ظہیر سے فارغ ہوکر وہ والہانہ انداز میں مجھ سے لپٹ گیا۔ ’’میں بتا نہیں سکتا کہ آپ سے دوبارہ مل کر کتنی خوشی ہوئی جمال بھائی۔ میں تو سمجھ بیٹھا تھا کہ وہ ہماری آخری ملاقات ہے‘‘۔
اس نے ہمیں آرام دہ بستر پر بٹھاکر مٹی کے تیل کے چولہے پر چائے چڑھادی اور خوش گوار لہجے میں کہا۔ ’’اچھا ہوا، آپ دونوں آج آئے ہیں۔ ناصر بھی آیا ہوا ہے۔ اس سے بھی ملاقات ہوجائے گی‘‘۔ اس کا جملہ ابھی بمشکل مکمل ہوا تھا کہ سیڑھیوں پر کسی کے قدموں کی آہٹ سنائی دی اور کمرے کے دروازے سے لگ بھگ پچیس برس کی عمر کا ایک وجیہ شخص اندر داخل ہوا۔ اس کے چہرے کے نقوش اور قد کاٹھ یاسر بھٹ سے کافی مشابہ تھے، لہٰذا یہ اندازہ مشکل نہیں تھا کہ وہی یاسر کا بھتیجا ناصر بھٹ ہے۔ ہمیں دیکھ کر اس کا چہرہ خوشی سے کھِل اٹھا۔ وہ انتہائی گرم جوشی سے ملا۔
ہمارے سامنے اطمینان سے بیٹھتے ہوئے یاسر نے بغور ہمارے چہروں کا جائزہ لیتے ہوئے کہا۔ ’’میں اندازہ ہی لگا سکتا ہوں کہ آپ دونوں کسی مہم سے واپس لوٹے ہیں اور دونوں کے چہروں سے لگتا ہے کہ آپ لوگ کامیاب رہے ہیں‘‘۔
ظہیر کو امتحان میں ڈالنے کے بجائے گفتگو کی باگ ڈور میں نے سنبھال لی۔ ’’آپ نے ٹھیک اندازہ لگایا یاسر بھائی۔ لیکن ابھی ہمیں پوری کامیابی نہیں ملی۔ یوں سمجھیں کہ ابھی ابتدائی مرحلہ مکمل ہوا ہے۔ اپنے مشن میں پوری طرح کامیاب ہونے کے لیے ہمیں بھرپور مدد درکار ہوگی‘‘۔
یاسر بھٹ نے سوالیہ نظروں کے ساتھ پہلے مجھے اور پھر ظہیر کی طرف دیکھا۔ ظہیر اور میں پہلے ہی اس فیصلے پر متفق تھے کہ اب یاسر بھٹ کو اس معاملے میں شامل کیے بغیر بات نہیں بنے گی۔ چنانچہ اس نے یاسر کو بتایا۔ ’’یاسر بھائی ہم ایک طاقت ور سیاست دان کی تحویل میں برسوں سے موجود دو کشمیری لڑکیوں کو بھاری رقم کے عوض رہائی دلانے کی جدوجہد میں مصروف ہیں‘‘۔
ظہیر کی بات سن کر یاسر بھٹ بری طرح چونکا۔ ’’کشمیری لڑکیاں؟ کون بدبخت ہے جس نے ہماری بہنیں یرغمال بنا رکھی ہیں؟ اور کتنی رقم مانگ رہاہے وہ؟‘‘۔
میں نے اسے تسلی دی۔ ’’رقم تو بہت بھاری ہے، لیکن ہم نے بندوبست کرلیا ہے اور وہ شخص بدلے میں ان دونوں لڑکیوں کو ہمارے حوالے کرنے پر بھی تیار ہے۔ اب ہمیں ان دونوں لڑکیوں کو کشمیر منتقل کرنے اور اس سے پہلے مختصر عرصے کے لیے پناہ دینے کے لیے آپ کی مدد درکار ہے‘‘۔
میری بات سن کر یاسر نے جذباتی لہجے میں کہا۔ ’’اس مقصد کے لیے تو میری جان بھی حاضر ہے بھائی۔ کوئی اور مدد درکار ہے تو بلا تکلف بتائیں‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’نہیں، فی الحال اتنا ہی ساتھ چاہیے آپ کا۔ ہم دونوں پرسوں جاکر ان دونوں کو یہاں لائیں گے۔ تب تک آپ ان کے قیام کا بندوبست کر دیں۔ انہیں ایک دو دن کے لیے یہاں چھوڑکر ہم دونوں ایک اور ضروری کام نمٹانے کے لیے جائیں گے۔ ہماری واپسی تک آپ انہیں کشمیر بھجوانے کے انتظامات کر لیجیے گا‘‘۔ (جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment