مرزا عبدالقدوس
شیخو پورہ کے تھانہ بھکھی کی حدود میں سفاک لڑکی نے اپنی منگنی ٹوٹنے کا بدلہ لینے کیلئے اپنے بھائی اور کزن کی مدد سے سابق منگیتر کے کمسن بھانجے اور بھانجی کو اغوا کرکے قتل کر دیا اور لاشیں بوری میں بند کر کے نہر میں بہا دیں، جو بعد میں تلاش کر لی گئیں۔ یہ دلخراش واقعہ رانا ٹائون، فیروز وٹوال ضلع شیخو پورہ میں پیش آیا، جو تھانہ بھکھی سے بارہ کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ دو سالہ خدیجہ اور تین سالہ توحید والدین کے ہمراہ فیصل آباد سے اپنے ننھیال آئے ہوئے تھے کہ جہالت پر مبنی انتقام کا نشانہ بن گئے۔ اس دہرے قتل کی مرکزی کردار نبیلہ نامی لڑکی ہے، جس کی کچھ عرصے قبل مقتول بچوں کے سگے ماموں شاہد اسماعیل سے منگنی ہوئی۔ مقامی ذرائع کے مطابق یہ منگنی اس وجہ سے ٹوٹ گئی تھی کہ پولیس نے نبیلہ کے گھر پر چھاپہ مارا تو وہاں سے منشیات برآمد ہوئی، جس کی وجہ سے اس گھر کی کافی بدنامی ہوئی تھی۔ اس پر شاہد اسمعیل نے یہ کہہ کر نبیلہ سے منگنی توڑ دی تھی کہ وہ ایسی فیملی میں شادی نہیں کر سکتا، جس کے لوگ جرائم میں ملوث ہوں۔ ذرائع کے مطابق اس کا نبیلہ کو بہت رنج تھا اور وہ اپنے سابق منگیتر اور اس کے خاندان سے بدلہ لینے کیلئے تڑپ رہی تھی۔ ذرائع نے بتایا کہ دونوں خاندان مزدور پیشہ ہیں اور دیہاڑی پر محنت مزدوری کر کے اپنے بچوں اور خاندان کا پیٹ پال رہے ہیں۔ شاہد کی بہن کی شادی جڑانوالہ ضلع فیصل آباد میں ان کے ایک رشتہ دار شکیل احمد سے ہوئی تھی، جو انہی کی طرح مزدور پیشہ ہے۔ چار دسمبر کو شاہد کی بہن اور بہنوئی شکیل اپنے دو معصوم بچوں کو لے کر جڑانوالہ سے فیروز وٹواں آئے تو انتقام کی آگ میں جلتی نبیلہ نے ان بچوں کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی شروع کر دی۔ سولہ دسمبر کو دوپہر تقریباً 11 بجے نبیلہ نے ان بچوں کو اس وقت اغوا کرلیا، جب وہ گھر سے تھوڑے فاصلے پر واقع دکان سے چیز لے رہے تھے۔ گھر والوں کی کافی کوششوں اور مساجد میں اعلانات کے باوجود جب بچوں کا کوئی سراغ نہ ملا تو یہ طے ہو گیا کہ اس دیہی علاقے سے بچے خود کہیں نہیں جا سکتے، یقیناً انہیں اغوا کیا گیا ہے۔ اسی دن نامعلوم افراد کے خلاف اغوا کا مقدمہ بھی درج کرا دیا گیا اور پولیس بھی اپنے طور پر بچوں کی بحفاظت بازیابی کیلئے سرگرم ہوگئی۔ لیکن سب کوششیں ناکام ہوگئیں۔ دو دن بعد منگل اور بدھ کی درمیانی شب ان پھول سے بچوں کی لاشیں قریبی نہر سے برآمد کرلی گئیں۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ اس نے ملزمان کو لاشیں نہر میں بہاتے دیکھ لیا تھا، جس کے بعد ملزمان فرار ہو گئے۔ لیکن نشاندہی کے بعد انہیں گرفتار کرلیا گیا۔
پولیس ذرائع کے مطابق ملزمہ نبیلہ، اس کے بھائی شاہد محبوب اور کزن حفیظ نے مل کر منصوبہ بندی کی اور بچوں کو اغوا کرنے کے بعد گلے گھونٹ کر قتل کیا۔ پھر دونوں لاشیں ایک بوری میں بند کر کے اس بوری کی سلائی کر دی۔ وہ بوری کو نہر میں بہا رہے تھے کہ پکڑے گئے۔ جبکہ مقامی ذرائع کا کہنا ہے کہ گائوں کے لوگوں نے نہر بند کرانے کے بعد اپنے طور پر لاشوں کی تلاش شروع کی تو ایک بند بوری ملی، جس میں دونوں بہن بھائی خدیجہ اور توحید کی لاشیں تھیں۔ گرفتاری کے بعد ملزمہ نبیلہ نے ابتدائی بیان میں پولیس کو بتایا کہ اس سازش میں بچوں کا سگا ماموں (اس کا سابق منگیتر) شاہد بھی شامل تھا۔ پولیس سارا دن بچوں کے پوسٹ مارٹم اور میتیں ان کے والدین کے حوالے کرنے میں مصروف رہی اور ابتدائی بیان کے بعد ملزمان سے مزید تفتیش نہیں ہو سکی۔ قیاس کیا جا رہا ہے کہ عیار ملزمہ نبیلہ نے اپنے سابق منگیتر سے مزید بدلہ لینے کیلئے اس کا نام بھی جان بوجھ کر لیا ہے۔ پولیس نے نبیلہ کے بیان کی روشنی میں مقتول بچوں کے ماموں کو بھی گرفتار کر لیا ہے۔ مقامی یونین کونسل کے چیئرمین امجد وٹو کے مطابق امکان ہے کہ بچوں کا ماموں ایک دو دن میں رہا ہو جائے گا۔ امجد وٹو نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دونوں خاندان آپس میں رشتہ دار ہیں۔ نبیلہ گھریلو لڑکی ہے، حیرت ہے کہ اس نے یہ ظالمانہ کام کیسے کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مظلوم خاندان کو انصاف ملنا چاہئے۔ مقتول بچوں کے والد شکیل احمد نے دھاڑیں مار کر روتے ہوئے اپنے ساتھ ہونے والے ظلم پر دہائی دی اور کہا کہ اس کے معصوم بچوں کا کیا قصور تھا۔ چیف جسٹس اور وزیر اعظم عمران خان اس کو انصاف دلائیں۔ دوہرے قتل کیس کے تفتیشی افسر شبیر حسین نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’پہلے تفتیش کسی اور افسر کے پاس تھی۔ تاہم بچوں کی لاشیں ملنے کے بعد قتل کیس بننے پر مجھے ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ کل کا سارا دن پوسٹ مارٹم اور قانونی تقاضے پورے کرنے میں گزرا۔ اب ایف آئی آر میں قتل اور دیگر دفعات بھی شامل ہوں گی۔ تمام ملزمان گرفتار ہیں، پولیس اپنا کردار احسن طریقے سے ادا کرے گی اور مظلوم خاندان کو انصاف دلانے کی پوری کوشش کی جائے گی‘‘۔