بابرکت کام کے عوض اللہ نے بہت آسانیاں عطا فرمائیں

چوتھی وآخری قسط
محمد زبیر خان
نسیم اختر نے سوئی دھاگے سے کپڑے پر مکمل قرآن پاک لکھ لیا تو اس کی دس جلدیں بنائی گئیں۔ سوئی دھاگہ کتنا لگا، اس کا کوئی حساب کتاب نہیں ہے۔ لیکن مٹیریل ہمیشہ اچھی کوالٹی کا استعمال کیا۔ جب سے قرآن پاک کا منفرد نسخہ مدینہ منورہ کی قرآن اکیڈمی میں رکھوا کر آئی ہیں، اس وقت سے اُن کا دل وہیں اٹکا رہتا ہے۔ نسیم اختر کا کہنا تھا کہ ’’میں اللہ سے دعا کرتی تھی کہ مجھے بچوں کے رشتوں اور روزگار کے سلسلے میں کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسا ہی ہوا۔ مجھے اتنے اچھے رشتے ملے کہ بیان نہیں کر سکتی‘‘۔ نسیم اختر کے شوہر غلام مصطفیٰ کا کہنا تھا کہ ’’جب میری اہلیہ نے کپڑے پر سوئی دھاگے سے قرآن پاک لکھنے کا ارادہ ظاہر کیا تو میں نے انہیں بخوشی اس بابرکت کام کی اجازت دیدی اور ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا‘‘۔
نسیم اختر نے اپنی زندگی کی کہانی بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’’میرے ہاتھ سے لکھا قرآن پاک کا نسخہ دس جلدوں میں محفوظ ہے۔ کتنا سوئی دھاگہ لگا، اس کا کوئی حساب نہیں ہے۔ مگر کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میں کام کیلئے بیٹھی ہوں اور سوئی دھاگہ نہ۔ یہ چیزیں ہمیشہ وافر تعداد میں موجود ہوتی تھیں۔ بچے دیکھتے رہتے تھے۔ اگر سوئی دھاگہ کم ہوتا تو وہ خود ہی لا کر رکھ دیتے تھے۔ میں کالے رنگ کا اچھی کوالٹی کا دھاگہ استعمال کرتی تھی، جو عموماً ایک ہی دکان سے خریدتی تھی، اس لئے کوالٹی میں کوئی فرق نہیں آیا۔ جب سے قرآن پاک مدینہ کی قرآن اکیڈمی میں رکھوا کر آئی ہوں، میرا دل اُدہر ہی اٹکا ہوا ہے۔ طویل عرصے تک منفرد انداز سے قرآن پاک کی لکھائی کے بعد اب کیسا محسوس کرتی ہوں، یہ بیان کرنے سے قاصر ہوں۔ بس ایسے محسوس ہوتا ہے کہ یہ 32 سال کا معاملہ نہیں، ابھی کل ہی کی بات ہو۔ ان بتیس برسوں میں بہت کچھ بدل چکا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک بیٹے اور ایک بیٹی سے نوازا۔ بیٹی اپنے بھائی سے دو سال بڑی ہے۔ جب میں قرآن کی کتابت کا کام کرتی تھی تو اکثر کہا کرتی تھی کہ ’اللہ مجھے بچوں کے معاملات میں پریشانی نہ اٹھانی پڑے۔ میں ان کے رشتوں، روزگار اور دیگر معاملات کیلئے در در نہیں پھرنا چاہتی تھی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے میری یہ دعا قبول ہوئی۔ میری بچی نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے۔ کئی جگہوں پر اس کے رشتے کی بات چل رہی تھی۔ لیکن میرا دل نہیں مان رہا تھا۔ پھر ایک روز میری رشتے کی ایک پھوپھی گھر آئیں، ان کا بیٹا برطانیہ میں ہوتا ہے اور وہ خود بھی برطانیہ ہی میں رہتی ہیں۔ کچھ دیر بات چیت کرنے کے بعد انہوں نے میری بیٹی کا رشتہ مانگ لیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ میری بیٹی کو ہی اپنی بہو بنائیں گی اور یہ رشتہ پکا کئے بغیرنہیں جائیں گی۔ لیکن میں کسی صورت بھی اپنی بیٹی کو برطانیہ نہیں بھیجنا چاہتی تھی۔ اس موقع پر میرے شوہر نے کہا کہ اگر تمہارا دل لڑکے اور اس کے گھر والوں کے اخلاق و کردار کے حوالے سے مطمئن ہے تو رشتہ کیلئے ہاں کردو۔ ہم نے اپنی بیٹی کو رخصت تو کرنا ہی ہے، اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ وہ برطانیہ چلی جائے یا گجرات میں رہے۔ بس ان کے ہمت دلانے پر رشتہ دے دیا اور الحمد للہ بیٹی اپنے گھر میں خوش ہے۔ اسی طرح کا معاملہ بیٹے کے ساتھ بھی ہوا۔ میں اس کیلئے رشتہ ڈھونڈ رہی تھی اور خاندان میں غیر محسوس انداز سے لڑکیوں کو دیکھ رہی تھی۔ لیکن کسی جگہ کوئی بات نہیں چلائی تھی اور نہ کسی کو یہ اشارہ دیا تھا کہ میں بیٹے کا رشتہ چاہتی ہوں، کیونکہ یہ طریقے مجھے اچھے نہیں لگتے۔ پھر اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ ایک روز اچانک میری چوتھی کلاس کی ٹیچر کسی معاملے میں (جو مجھے اب یاد نہیں) میرے گھر آ گئیں۔ ان کی بیٹی بھی ساتھ تھی۔ وہ تو مجھے نہیں پہچان سکیں، لیکن میں نے اپنی استاد کو پہچان لیا۔ میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا تھا۔ ان سے بات چیت شروع ہوئی تو بچوں کی بھی بات ہوئی۔ ان کی بیٹی پہلی ہی نظر میں مجھے اتنی اچھی لگی کہ میں نے فیصلہ کرلیا، کہ اس بچی کو ہی اپنی بہو بناؤں گی۔ میں زیادہ رسم و رواج میں پڑنے والی نہیں ہوں۔ اس لئے ہمت کرکے پہلی ہی ملاقات میں اپنی استاد سے ان کی بیٹی کا رشتہ مانگ لیا اور بتایا کہ میں تکلفات میں پڑنے والی نہیں ہوں۔ انہوں نے بھی میرے بیٹے کو دیکھ لیا تھا۔ لہذا فیصلہ کرنے میں دیر نہیں لگائی اور فوراً ہاں کردی۔ اللہ تعالی نے مجھے انتہائی اچھی بہو دی ہے۔ بیٹے کے روزگار کا معاملہ بھی اسی طرح آسانی سے حل ہوا۔ میں نے مکان بنانا شروع کیا تو اللہ تعالیٰ نے جس طرح مدد کی، وہ بیان سے باہر ہے۔ بس اب کوشش کر رہی ہوں کہ اپنا ہنر نوعمر بچیوں میں منتقل کروں۔ اگر اس سلسلے میں حکومت میری مدد کرے تو بہت اچھا ہوگا۔ دستکاری اسکول بنا کر دے دیا جائے تو بچیوں کو سلائی اور کڑھائی سکھائوں گی‘‘۔
نسیم اختر کے شوہر غلام مصطفیٰ نے ’’امت‘‘ کو بتایاکہ… ’’برسوں قبل نسیم اختر نے مجھ سے سوئی دھاگے سے قرآن پاک تحریر کرنے کی بات کی تھی اور اس کے پاس کپڑے کے تھان بھی موجود تھے۔ یہ تو میں جانتا تھا کہ وہ بہت بھلی مانس ہے۔ اللہ نے اس کے دل میں یہ کام کرنے کی بات ڈال دی ہے تو میں کون ہوتا ہوں اس کو روکنے والا۔ میں نے اس کی ہمت بڑھائی اور تعاون کرنے کا یقین بھی دلایا۔ پھر 32 سال تک وہ محنت اور لگن سے یہ بابرکت کام کرتی رہی اور اس دوران مجھے کبھی گھر کے معاملات اور بچوں کے حوالے سے کسی شکایت کا موقع نہیں دیا۔ کبھی ایسی نوبت نہیں آئی کہ میں کہہ سکوں، نسیم اختر نے میرا خیال نہیں رکھا۔ دنیا تو فانی ہے، لیکن جو کام نسیم اختر نے کیا ہے، اس کے بدلے اس نے ہم سب کیلئے آخرت خرید لی ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالی اس کی کاوش کو قبول فرمائے، آمین‘‘۔
نسیم اختر کے بیٹے محمد اقبال کا کہنا تھا کہ… ’’بچپن میں تو اتنی سمجھ نہیں تھی۔ مگر جب کچھ ہوش سنبھالا تو پتا چلا کہ والدہ کتنا بڑا کام کر رہی ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ ہمارا بھی ہر طرح سے خیال رکھتی تھیں۔ جوتے، کپڑے، یونیفارم، ناشتہ، کھانا سب وقت پر تیار ملتا تھا۔ ہمیں گھر اور اسکول کے معاملات میں کبھی کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔ مجھے فخر ہے کہ میں ایسی ماں کا بیٹا ہوں جس نے ناقابل فراموش کام کیا ہے‘‘۔

Comments (0)
Add Comment