نون لیگ اب پیپلز پارٹی کا تماشا دیکھنے کی خواہشمند

امت رپورٹ
مسلم لیگ ’’ن‘‘ اور پیپلز پارٹی اپنے مرکزی قائدین کی گرفتاری کے بعد کی اسٹرٹیجی ترتیب دے چکی ہیں۔ اس حکمت عملی کے تحت آصف زرداری کی گرفتاری کی صورت میں پیپلز پارٹی نے ’’سندھ کارڈ‘‘ استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ دوسری جانب نواز شریف کے دوبارہ گرفتار ہونے پر نون لیگ نے بھی حکومت کو ٹف ٹائم دینے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ’’ن‘‘ نے قائدین کی گرفتاری کے خلاف براہ راست احتجاج سے زیادہ بالواسطہ طور پر ’’پشتون کارڈ‘‘ کھیلنے کا پلان بنا رکھا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ایک جیسے مشکل حالات میں بھی اپوزیشن کی یہ بڑی پارٹیاں مشترکہ طور پر میدان میں اترنے پر تیار نہیں، اور دونوں نے اپنی الگ الگ اسٹرٹیجی ترتیب دی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جس طرح کچھ عرصہ پہلے تک حکومت کے زیر عتاب شریف برادران کا تماشا پیپلز پارٹی کے قائدین خاموشی سے دیکھ رہے تھے۔ اب یہی خواہش نون لیگ کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کے خلاف پارلیمنٹ سے باہر مشترکہ احتجاج کے لئے دونوں پارٹیوں کے درمیان فی الحال کوئی بات چیت شروع نہیں ہو سکی ہے، اور ان کا غیر رسمی اتحاد صرف پارلیمنٹ کے اندر تک محدود ہے۔
واضح رہے کہ العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز میں 19 دسمبر کو دلائل مکمل ہونے کے بعد احتساب عدالت فیصلہ محفوظ کر چکی ہے، جو پیر کو سنایا جائے گا۔ نون لیگ کے اندرونی ذرائع نے بتایا کہ مرکزی پارٹی قیادت کی اکثریت کو نواز شریف کی دوبارہ گرفتاری کا خدشہ ہے۔ ان خدشات کا اظہار جمعرات کو نواز شریف اور شہباز شریف کے درمیان تنہائی میں ہونے والی ملاقات کے علاوہ پارٹی کے مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس میں بھی کیا گیا۔ پارلیمنٹ ہائوس میں شریف برادران کے درمیان میٹنگ چونکہ ون آن ون تھی، لہٰذا اس ملاقات کے دوران ہونے والی ڈسکشن کی تمام تفصیلات فوری طور پر دستیاب نہیں ہو سکیں۔ تاہم شریف برادران کے قریبی ذرائع نے بتایا کہ ملاقات کا ایجنڈا سابق وزیراعظم کی ممکنہ گرفتاری اور اس کے بعد کی صورت حال کے حوالے سے طے کردہ حکمت عملی کو فائنل کرنا تھا۔ کیونکہ پیر کے روز اگر نواز شریف کی گرفتاری ہو جاتی ہے تو دونوں بھائیوں کی بالمشافہ ملاقات کے مواقع محدود ہو جائیں گے۔ ذرائع کے بقول ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کی گرفتاری اور اب العزیزیہ کیس میں ممکنہ گرفتاری کے بعد کے سنیاریو میں واضح فرق یہ ہو گا کہ پہلے پارٹی امور چلانے کے لئے پارٹی صدر شہباز شریف موجود تھے۔ لیکن اب وہ آشیانہ ہائوسنگ اسکینڈل میں زیر حراست ہیں، جبکہ حمزہ شہباز پر بھی گرفتاری کی تلوار لٹک رہی ہے۔ دوسری جانب مریم نواز کو تاحال سیاست سے دور رکھنے کا فیصلہ برقرار ہے۔ لہٰذا نون لیگ کے لئے اس وقت سب سے اہم معاملہ یہ ہے کہ تمام مرکزی رہنمائوں کی گرفتاری کی صورت میں پارٹی کون چلائے گا؟
نواز شریف اور شہباز شریف کے درمیان ون آن ون ملاقات کے علاوہ نواز شریف کی سربراہی میں پارٹی کا مرکزی مجلس عاملہ کا اجلاس بھی ہوا۔ جس میں شہباز شریف، ایاز صادق، حمزہ شہباز، احسن اقبال، رانا تنویر، عبدالقادر بلوچ، مریم اورنگزیب اور آصف کرمانی بھی موجود تھے۔ اس اجلاس میں بھی اس بات کا اعادہ کیا گیا کہ لاہور میں نون لیگ کے یوم تاسیس سے متعلق تقریب کے ساتھ ہی 30 دسمبر سے عوامی رابطہ مہم شروع کی جائے گی۔ جس کے تحت ابتدائی طور پر تمام اضلاع میں ریلیاں نکالی جائیں گی۔ تین روز قبل اسلام آباد میں نواز شریف اور شہباز شریف کی زیر قیادت اجلاس میں عوامی رابطہ مہم کے فیصلے پر اتفاق کیا گیا تھا۔
نواز شریف کی گرفتاری کی صورت میں حکومت کو ٹف ٹائم دینے کے عندیہ پر ایک سینئر پارٹی عہدیدار کا کہنا ہے کہ نون لیگ کوئی جارحانہ حکمت عملی اختیار کرنے نہیں جا رہی کہ جس سے ملک کا نظام جام کر دیا جائے۔ عہدیدار کے بقول عوامی رابطہ مہم کا اصل مقصد پارٹی کے تنظیمی ڈھانچے کو مضبوط کرنا ہے۔ تاکہ مستقبل قریب میں اگر ورکرز کو سڑکوں پر لانے کا فیصلہ کیا جاتا ہے تو وہ اس کے لئے تیار ہوں۔ عہدیدار کے مطابق ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف اور مریم نواز کی سزا معطل ہونے کے خلاف سپریم کورٹ میں نیب کی اپیل کی سماعت بھی دسمبر کے آخر میں شروع ہو رہی ہے۔ ایسے میں شریف خاندان مریم نواز کو سڑکوں پر لا کر کسی قسم کا رسک نہیں لینا چاہتا۔
لیگی ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کی گرفتاری سے پہلے اور بعد میں آصف زرداری نے اسٹیبلشمنٹ کی خوشنودی کے لئے جس طرح سابق وزیر اعظم کو الطاف حسین جیسا غدار قرار دینے کی کوشش کی اور انہیں گریٹر پنجاب منصوبے کا خالق تک کہہ دیا۔ یہ بات اب تک نواز شریف کے دل میں ہے۔ لیگی ذرائع کے بقول اسی طرح نواز شریف کو یہ شکوہ بھی ہے کہ جب مشکل حالات میں وہ آصف زرداری سے رابطوں کی کوشش کر رہے تھے تو سابق صدر نے ان کوششوں کو میڈیا پر افشا کر کے انہیں رسوا کرنے کی کوشش کی۔ جبکہ چیئرمین سینیٹ، وزیراعظم اور قومی اسمبلی کے اسپیکر کے انتخاب کے موقع پر پیپلز پارٹی نے جو رویہ اختیار کیا، اس کی تلخی بھی نواز شریف اب تک محسوس کر رہے ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ ان تمام عوامل کے پیش نظر فی الحال مسلم لیگ ’’ن‘‘ نے پارلیمنٹ میں تو بطور اپوزیشن پیپلز پارٹی کے ساتھ چلنے پر اتفاق کیا ہے۔ تاہم مشترکہ طور پر پارلیمنٹ سے باہر احتجاج پر تیار نہیں۔ نون لیگ کی خواہش ہے کہ جس طرح پیپلز پارٹی ان کے رہنمائوں کی گرفتاری پر لاتعلق بنی رہی۔ اب وہ بھی فی الحال اسی طرح پیپلز پارٹی کا تماشا دیکھے۔ جبکہ اسلام آباد میں موجود ذرائع کا کہنا ہے کہ نواز شریف، طاقتور حلقوں کے بعض لوگوں سے رابطے میں ہیں۔ لیکن تاحال انہیں مطلوبہ ریلیف نہیں مل سکا ہے۔ جبکہ مستقل قریب میں بھی مکمل ریلیف کا امکان دکھائی نہیں دے رہا۔ البتہ حکومت اور انسداد کرپشن کے اداروں کی توجہ اب پیپلز پارٹی کی جانب ہو جانے کا ایڈوانٹیج نون لیگ کو ضرور ملے گا، تاکہ دونوں پارٹیاں ایک نہ ہو سکیں۔ دوسری جانب لیگی قیادت یہ امید لگائے بیٹھی ہے کہ جس طرح ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا کے بعد نواز شریف اور مریم نواز کو ہائی کورٹ سے ریلیف مل گیا تھا، اسی طرح العزیزیہ کیس میں سزا ملنے کی صورت میں بھی سابق وزیراعظم کو ضمانت مل سکتی ہے۔ ذرائع کے بقول اس سنیاریو میں شریف برادران نے طے کیا ہے کہ اب حکومت اور پیپلز پارٹی کے درمیان جو پیچا لگا ہے، اس میں فریق بن کر اپنے لئے مزید مشکلات پیدا نہ کرے۔ ذرائع کے مطابق نون لیگ کی تازہ حکمت عملی یہی ہے۔ مستقبل قریب میں حالات و واقعات کو دیکھ کر پالیسی میں کوئی ردوبدل ہوتا ہے تو وہ الگ بات ہے۔ وفاقی دارالحکومت میں موجود ذرائع نے یہ انکشاف بھی کیا کہ نون لیگ نے مرکزی رہنمائوں کی گرفتاریوں پر منظر عام پر آ کر جارحانہ تحریک چلانے کے بجائے اپنے ہم خیال ایسے پریشر گروپس کی پس پردہ سپورٹ کا فیصلہ کیا ہے، جو حکومت کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کے لئے نکلنا چاہتے ہیں۔ ذرائع کے بقول اسی نوعیت کے گروپ پشتون تحفظ موومنٹ فروری میں اسلام آباد میں بڑے احتجاج یا دھرنے کا پروگرام بنا رہی ہے۔ نون لیگ نے پس پردہ اس احتجاج کو سپورٹ کرنے کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔ اس کے لئے پی ٹی ایم کے ورکرز اور ہمدردوں کو نہ صرف وفاقی دارالحکومت میں لانے کے لئے وسائل اور لاجسٹک سپورٹ فراہم کی جائے گی۔ بلکہ پی ٹی ایم وررکز کے روپ میں لیگی کارکنوں کی ایک تعداد کو بھی احتجاج میں شامل کرنے کی اسٹرٹیجی طے کی گئی ہے، تاکہ پشتون موومنٹ کو افرادی قوت فراہم کر کے بڑے پیمانے پر احتجاج کرایا جا سکے۔ ذرائع کے بقول اس مجوزہ احتجاج سے قبل پی ٹی ایم قیادت کے گرفتار ہونے کا امکان بھی اپنی جگہ موجود ہے۔ اس صورت میں پلان متاثر ہو سکتا ہے۔
دوسری جانب سابق صدر آصف زرداری کی ممکنہ گرفتاری پر پیپلز پارٹی نے بھی اپنی حکمت عملی تیار کر لی ہے۔ جس کے تحت ملک بھر اور بالخصوص سندھ میں بڑے پیمانے پر احتجاج کا پلان تشکیل دیا گیا ہے۔ ایک انگریزی اخبار کے بقول آج (جمعہ کو) پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری کی پیشی کے موقع پر تمام ارکان سینیٹ، قومی اسمبلی و صوبائی اسمبلی اور کارکنان کو بینکنگ کورٹ پہنچنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ جبکہ پی پی خواتین ونگ نے بھی تمام عہدیداران کو صبح عدالت میں حاضری یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے۔
ذرائع کے مطابق آصف زرداری کی گرفتاری کی صورت میں پیپلز پارٹی نے ’’سندھ کارڈ‘‘ کھیلنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ جس کے تحت احتجاجی مظاہروں میں اس تاثر کو عام کیا جائے گا کہ ماضی کی طرح اس بار بھی مرکز میں بیٹھے پالیسی سازوں کی جانب سے سندھ کی اکثریتی پارٹی کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ پیپلز پارٹی قیادت سے قریبی تعلقات رکھنے والے گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس کے ایک ذریعے کے مطابق تحریک انصاف نے اپنے ابتدائی سو روز میں جس طرح مہنگائی کا جن بوتل سے نکالا، تجاوزات کے نام پر لوگوں کو ان کی دکانوں اور مکانوں سے محروم کیا جا رہا ہے، اس سے عوام میں پی ٹی آئی کی مقبولیت کم ہوئی ہے۔ اس سچویشن میں پیپلز پارٹی کی جانب سے کھیلے جانے والا ’’سندھ کارڈ‘‘ کامیاب ہو سکتا ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment