محمد فاروق
سوات میں دوسری بار ایک اسلامی حکومت سید عبدالجبار شاہ باچا، المعروف ’’ستھانے میاں‘‘ کی قیادت میں قائم ہوئی تھی۔ لیکن ستھانے میاں کو معزول کر کے اس کی حکومت کو ڈھائی تین سال کے عرصے میں ختم کر دیا گیا تھا۔ جیسا کہ ہم نے عرض کیا تھا، اس کام میں سوات کے عمائدین کے علاوہ ایک بہت اہم اور بنیادی رول حضرت سنڈا کئی بابا جیؒ کا تھا۔ آپ کو ستھانے میاں کی معزولی کے پیچھے ’’اصل‘‘ کہانی شاید کتابوں میں نہیں ملے گی، مگر آج ہم آپ کو دلچسپ کہانی سنادیتے ہیں۔ یہ ناچیز صرف ایک واسطے سے اس کہانی کا براہ راست سامع ہے۔ ہم نے عرض کیا تھا کہ ہمارے مہمانوں میں جو انتہائی نورانی چہرے والے بزرگ شامل تھے، وہ حضرت مولانا خان بہادر مارتونگؒ تھے۔ یہی حضرت مارتونگ اپنے مرشد حضرت سنڈا کئی بابا جیؒ کے چہیتے مرید تھے۔ چکیسر سے اپر سوات کے لئے سفر میں یہ اپنے مرشد کے ساتھ پیچھے گھوڑی پر سوار تھے۔ انہی کو حضرت بابا جیؒ نے سفر کے دوران معجزانہ طور پر دو بار حلوہ انڈے کا کھانا کھلایا تھا۔ یہی حضرت مارتونگؒ، گوالیرئی مسجد میں اس ظالم خان کے خلاف کاروائی کے دوران موجود رہے۔ پھر یہی حضرت، یا تو غالباً اسی گوالیرئی مسجد میں… یا اپر سوات کی کسی اور بڑی جامع مسجد میں، سنڈا کئی بابا جیؒ کے اس اہم اقدام کے دوران بھی موجود رہے۔ جس میں سنڈا کئی بابا جیؒ کے ہاتھوں، ستھانے میاں معزول ہوئے۔
ستھانے میاں کے بارے میں سوات کے عمائدین، دو گرہوں میں تقسیم ہوگئے تھے۔ ایک گروہ ان کا حمایتی تھا، جو ان کی طرف سے تمام حکومتی اختیارات استعمال کرنے کا مجاز تھا۔ ان خوانین کی سیاسی وجاہت و اختیار میں سید عبدالجبار شاہ باچا کی حکومت کی وجہ سے کوئی کمی بیشی نہیں آئی تھی۔ اس لئے وہ بے شک حکومت کی حمایت کرنے والے تھے۔ دوسرا گروہ وہ تھا، جسے نہ صرف عبدالجبار شاہ کی طرف سے اختیارات کی کوئی سہولت حاصل نہ تھی، بلکہ ایک منظم حکومت کے قیام، اور روز بروز اس کے استحکام کو وہ مستقبل میں اپنی من مانیوں اور عوام پر اپنی طرف سے ظلم و چیرہ دستیوں کے لئے ایک چیلنج اور خطرہ سمجھ رہا تھا۔ لہذا سوات کے ان دونوں جانب کے خوانین کی حمایت یا مخالفت کسی تعمیری سوچ یا اصولوں پر مبنی نہ تھی، بلکہ دونوں طرف سے معاملہ خالص ذاتی مفاد کا تھا۔ رہے عوام، تو عوام… اور پھر سوات کے عوام کا کیا کہنے۔ ان میں ایک طرف یا تو خوئے غلامی میں پختہ غلام تھے، جو اپنے ان ظالم خانوں کے رحم و کرم پر اپنی ہر قسمت کے فیصلے کو تقدیر الہٰی سمجھ کر قانع تھے…۔ یا دوسری طرف وہ تھے جو مفادات میں حصہ بقدر جثہ کی سہولت رکھتے تھے…۔ لہذا ان کی رضا مندی یا ناراضگی بھی اسی مفاد کی کشش ثقل کے گرد گھومتی تھی۔ مفادات و آرزوؤں کے اس کالے سمندر میں اگر کوئی شخصیت واقعی اس قومِ ناہنجار کی حقیقی خیر خواہ اور اس کے مستقبل کے لئے بحا طور پر پریشان تھی، تو وہ حضرت سنڈا کئی بابا جیؒ کی ذات تھی۔
حضرت سنڈا کئی بابا جیؒ بڑی باریک بینی سے اس صورت حال پر نظر رکھے ہوئے تھے۔ اس کشمکش اور سید عبدالجبار شاہ کی مستقبل کے بارے میں چی مگوئیاں ہو رہی تھیں، کہ اچانک یہ افواہ بھی پھیل گئی کہ سوات کی اس اسلامی حکومت کا حکمران، سید علی ترمذی کے خاندان کا چشم و چراغ اور حضرت سنڈا کئی بابا جیؒ کی امیدوں کا مرکز سید عبدالجبار شاہ قادیانی ہوگیا ہے۔ اب یہ خبر جہاں عبدالجبار شاہ باچا کے ساتھیوں اور ان کی حمایت میں کھڑے ہونے والوں کے سروں پر بجلی بن کر گری، وہیں اس کے مخالفین اسے ایک بہت ہی اچھا موقع سمجھ کر اس سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی تیاری کرنے لگے۔
یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے، جیسا کہ آپ سب جانتے بھی ہیں، مرزا غلام احمد قادیانی شروع میں عیسائیوں سے مناظروں، اسلام مخالف اہل علم سے کلامی بحث و مباحثوں اور مناقشوں کی بدولت ایک دینی رہنما کے طور پر مسلمانوں کے اندر ایک قابل عزت مقام حاصل کر چکا تھا۔ آہستہ آہستہ جب اس کے ہاں خوابوں، اور کشف و مکاشفات کا سلسلہ شروع ہوا اور یہ پیہم دراز ہوتا گیا، تو مسلمان اہل علم کسی حد تک شک میں پڑگئے تھے۔ مگر پھر کسی نے اس کا کوئی سنجیدہ نوٹس نہیں لیا۔ سن 1900ء میں پہلی بار جب مرزا قادیانی نے اپنے خوابوں کو الہامی حیثیت کا درجہ دینا شروع کیا، تو پہلی بار اہل علم کا ماتھا ٹھنکا اور انہیں گمان کی حد تک خدشہ ہوا، کہ یہ سلسلہ اب کسی ناقابل یقین تباہی پر جاکر رکے گا۔ اس مقام تک مرزا بڑی ہوشیاری سے ختم نبوت پر اپنے ایمان کا برابر اظہار کرتے رہا اور گویا ایک ’’مناسب‘‘ وقت کے انتظار میں تھا کہ جب اس کی طرف سے کوئی بڑا دعویٰ آئے گا، تو عقیدت مندوں کو اسے بلاچوں وچراں ماننے کوئی تامل نہ ہو، تدریج کی اس ہنر مندانہ شیشہ گری میں پہلے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا گیا۔ پھر 1900ء میں ایک خطبہ جمعہ کے موقع پر نبوت کا کھل کر دعویٰ سامنے آیا…۔ یہی دعویٰ 1901ء میں باقاعدہ تحریری شکل میں کتابوں میں درج ہونا شروع ہوا۔ ’’حکمت بالغہ‘‘ کے اس احتیاطی اور تدریجی سفر میں بعض مخلص مسلمان اور درد دین رکھنے والے یا تو ابتدا میں الگ ہوگئے تھے، جہاں خوابوں کے بارے میں الہامی ہونے کا دعویٰ سامنے آیا تھا، یا پھر مسیح موعود کے دعوے پر مزید اہل اخلاص نے اپنا راستہ الگ کیا تھا۔ جب بالآخر انیس سو میں دعوہ نبوت سامنے آیا تو اس بات میں کوئی شبہ نہیں رہا، کہ اب مرزا صاحب کا سفر بحیثیت رسول اللہ (نعوذباللہ) کے ایک مسلمان امتی ختم ہو چکا ہے اور اب وہ ایک الگ امت کا بانی اور اس کا کرتا دھرتا قرار پایا ہے۔ مگر مرزا غلام احمد قادیانی کی خوش قسمتی دیکھیے کہ جب ختم نبوت میں نقب لگا کر اور دائرہ اسلام سے نکل کر کفر کے اندھے کنویں میں سر کے بل چھلانگ لگا چکا، تو پیچھے مڑ کو دیکھنے پر خود حیران رہ گیا کہ اس کے اچھے خاصے عقیدت مندوں نے اسے مایوس نہیں کیا تھا اور وہ اندھیری راہوں کے اس سفر میں اس کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے پر آمادہ بلکہ خرسند تھے۔ ان بچاریوں میں یا تو حکیم نورالدین بھیروی کی طرح وقت کے جید اہل علم تھے، جن کے بارے میں قرآن کی یہ آیت بلکل صادق آتی ہے کہ:
’’پھر کیا تم نے کبھی اس شخص کے حال پر بھی غور کیا، جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا خدا بنالیا، اور اللہ نے، علم کے باوجود اسے گمراہی میں پھینک دیا اور اس کے دل اور کانوں پر مہر لگادی اور اس کی آنکھوں پردہ ڈال دیا؟ اللہ کے بعد اب اور کون ہے جو اسے ہدایت دے؟ کیا تم لوگ کوئی سبق نہیں لیتے؟‘‘ (الجاثیہ۔ 23)
کہ پہ علم لار موندے شوی بی فضلہ
چا بہ ضال نہ وے بو علی سینا تہ
’’اللہ کے فضل کے بغیر محض علم سے ہدایت ملتی، تو بو علی سینا کا شمار گمراہوں میں نہ ہوتا‘‘۔ (حافظ الپورئی)
یا پھر محب اسلام اور درد امت رکھنے والے وہ سادہ لوح تھے، جن کے بارے میں قرآن نے بجا طور پر کہا ہے کہ:
’’ان میں سے ایک دوسرا گروہ امیوں کا ہے، جو کتاب کا تو علم رکھتے نہیں، بس اپنی بے بنیاد امیدوں اور آروزؤں کو لیے بیٹھے ہیں اور محض وہم و گمان پر چلے جارہے ہیں‘‘۔ (البقرۃ۔ 78)
٭٭٭٭٭