نومسلم کی کہانی علامہ اقبال کی زبانی

قاضی عبد المجید قریشی مرحومؒ نے حضرت علامہ اقبالؒ سے اپنی ملاقات کا تذکرہ کرتے ہوئے علامہ کی زبانی نو مسلموں کے ایمان لانے کے واقعات مرتب کئے۔ قاضی صاحب کے اصرار پر علامہ اقبالؒ نے نو مسلموں کے واقعات کے سلسلے میں واقعہ اس طرح سنایا۔
محترمہ لیڈی بارنس:
لیڈی بارنس کا قبول اسلام عجیب واقعہ ہے۔ وہ ایک نو مسلم انگریز فوجی کی بیوی تھیں۔ چند سال پہلے کا ذکر ہے کہ یہ دونوں میاں بیوی ایک مقدمے میں ملوث ہو کر میرے پاس آئے۔ چونکہ الزامات سراسر جھوٹے تھے، اس لیے عدالت نے ان دونوں کو باعزت بری کردیا۔ چونکہ وکالت کے فرائض میں نے انجام دیئے تھے، اس لیے چند روز بعد لیڈی بارنس میرا شکریہ ادا کرنے کے لیے لاہور تشریف لائیں۔ اس وقت میں نے سوال کیا: ’’لیڈی صاحبہ! آپ کے مشرف بہ اسلام ہونے کے اسباب کیا ہیں؟‘‘
’’مسلمانوں کے ایمان کی پختگی ڈاکٹر صاحب!‘‘ لیڈی بارنس نے جواب دیا۔
’’لیڈی صاحبہ! میں نہیں سمجھا، اس سے آپ کی کیا مراد ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’لیڈی صاحبہ نے وضاحت میں ایک واقعہ سنایا۔‘‘ ’’ڈاکٹر صاحب میں نے دیکھا ہے کہ دنیا بھر میں کوئی بھی قوم ایسی نہیں، جس کا مسلمانوں کی طرح ایمان پختہ ہو۔ بس اسی چیز نے مجھے اسلام کا حلقہ بگوش بنا دیا ہے۔‘‘ لیڈی نے اپنا نظریہ پیش کرکے تھوڑا سا تامل فرمایا اور کہا:
’’ڈاکٹر صاحب، میں ایک ہوٹل کی مالکہ تھی۔ میرے ہوٹل میں ایک ستر سالہ بوڑھا مسلمان ملازم تھا، اس بوڑھے کا فرزند نہایت ہی خوب صورت نوجوان تھا۔ مہلک بیماری میں جب یہ لڑکا چل بسا تو مجھے بے حد صدمہ ہوا۔ میں بوڑھے کے پاس تعزیت کے لیے گئی۔ اسے تسلی دی اور دلی رنج وغم کا اظہار کیا۔ بوڑھا نہایت غیر مؤثر حالت میں میرے تعزیتی الفاظ سنتا رہا اور جب میں غم کی باتیں ختم کر چکی تو اس نے نہایت شاکرانہ انداز میں آسمان کی طرف انگلی اٹھائی اور کہا:
’’میم صاحبہ! یہ خدا کی تقدیر ہے۔ خدا کی امانت تھی، خدا لے گیا۔ اس میں غمزدہ ہونے کی کیا بات ہے؟ ہمیں تو ہر حال میں خدائے غفور کا شکر ادا کرنا ہے۔‘‘
لیڈی بارنس اتنا کہہ کر رک گئیں۔ ایسا معلوم ہوتا تھا، گویا انہوں نے کوئی بہت بڑا معجزہ بیان کیا ہے اور اب وہ زبان حال سے مجھ سے یہ مطالبہ کر رہی تھیں کہ میں بھی ان کے ساتھ مل کر حیرت کا اظہار کروں۔
میں نے کہا: ’’لیڈی صاحبہ پھر؟‘‘ لیڈی نے پھر اپنا قصہ شروع کیا اور کہا:
’’ڈاکٹر صاحب، بوڑھے کا آسمان کی طرف انگلی اٹھانا ہمیشہ کے لیے میرے دل میں پیوست ہوگیا۔ میں بار بار اس کے الفاظ پر غور کرتی تھی اور حیران تھی کہ الٰہی اس دنیا میں اس قسم کے صابر وشاکر اور مطمئن دل بھی موجود ہیں، مجھے بڑی کاوش یہ تھی کہ بوڑھے نے ایسا پراستقامت دل کیسے پایا؟ اسی غرض سے میں نے پوچھا: کیا مرحوم کے اہل وعیال بھی تھے؟ وہ کہنے لگا ’’ایک چھوٹا بچہ اور ایک بیوی ہے۔‘‘ بوڑھے کے اس جواب نے میری حیرت کم کردی۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment