باباسنڈا کئی نے عبدالجبار شاہ سے کڑی جواب طلبی فرمائی تھی

محمد فاروق
سید عبدالجبار شاہ، ایک سید زادہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک صاحب علم تھا۔ دین اسلام کے لئے اس کے خانوادے کی قربانیاں کوئی ڈھکی چھپی بات نہ تھی۔ اس کے بارے میں یہ گمان کرنا، کہ وہ فتنہ قادیانیت میں گھر چکے ہیں، ناقابل یقین حد تک مشکل تھا۔ پھر وہ خود بھی اپنی ذمہ داریوں اور سوات کے اندر موجود ماحول میں اپنی پوزیشن سے ناواقف تھا، نہ اس سے لاپرواہ ہو سکتا تھا۔ حقیقت کیا تھی؟ آیئے اسے سنڈاکئی بابا جیؒ کے اس چہیتے شاگرد و مرید، اور ہمارے مہمانوں میں نورانی چہرے والے بزرگ، حضرت مولانا مار تونگ باباجیؒ کی زبانی سنتے ہیں:
’’یہ بر سوات یا اپر سوات کی ایک بہت بڑی جامع مسجد… غالباً وہی گوالیرئی مسجد… کی کہانی ہے۔ میں سنڈاکئی باباجیؒ کے دوسرے عقیدت مندوں کے ساتھ موجود تھا۔ عمائدین سوات، خوانین اور عوام بھی بڑی تعداد میں یہاں پہنچ چکے تھے۔ آج گویا نہ صرف عبدالجبار شاہ کے معاملے کا تصفیہ ہونا تھا بلکہ سوات کے آئندہ مستقبل کا ایک ایسا فیصلہ ہونا تھا، جس نے اس علاقے پر ہر ہر لحاظ سے دور رس اثرات مرتب کرنا تھے۔ سنڈاکئی باباجیؒ مجمع میں اٹھے اور حمد و ثنا کے بعد، سید عبدالجبار شاہ کو مخاطب کر کے ارشاد فرمایا:
’’عبدالجبار شاہ! اب تک کو یہ بات معلوم ہوچکی ہوگی کہ یہ جرگہ اور نمائندہ اجتماع کس مقصد کے لئے منعقد کیا جارہا ہے۔ جو سیاسی اور انتظامی نوعیت کے معاملات ہیں، ان سے آپ باخبر ہیں اور اگرچہ وہ بھی اپنی اہمیت کے لحاظ سے ضرور قابل توجہ ہیں، مگر ذاتی طور پر اور اس علاقے کے مخلص مسلمان جس بات پر مرزا قادیانی کی محبت میں آپ اسلام کے عقیدے و ایمان کا راستہ چھوڑ چکے ہیں۔ آپ کیلئے دو راستے ہیں۔ یا تو آپ کھلے دل سے اپنی اس خطا کا اقرار کر کے توبہ کرلیں اور آئندہ کیلئے یہ وعدہ کریں کہ اس دشمن اسلام یا اس کے گمراہ گروہ سے آپ کا کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ ایسا کرنے کے بعد باقی معاملات پر باہمی گفت وشنید ہوسکتی ہے اور کسی قابل عمل حل پر پہنچا جاسکتا ہے۔ لیکن اگر آپ یہ نہیں کرسکتے تو پھر نہ ہمارے لئے یہ ممکن ہے کہ آپ کے عقیدے سے جبراً آپ کو پھیردیں، اس لئے کہ اس دین میں جبر نہیں۔ نہ ہمارے لئے یہ ممکن ہے کہ اس مسلمان خطے کی حکمرانی پر کسی کا فریا مرتد کو برداشت کریں۔ اس صورت میں آپ کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ آپ حکومت سے دست بردار ہوکر یہ امانت واپس لوگوں کو لوٹا دیں۔ پھر یہاں کے عوام اپنی یہ امانت جو کو چاہے۔ سپرد کرسکے۔‘‘
مجمع پر ایک سکتہ طاری ہوا۔ اب تک کی محج افواہوں کو جب باباجی ؒ کو مستند زبان نے توثیق کا جامہ پہنایا، تو لوگوں کو پہلی بار احساس ہوا کہ اب عبدالجبار شاہ کا سورج غروب ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگی گی۔
لیکن عبدالجبارشاہ؟ وہ کوئی معمولی آدمی نہیں تھا۔ وہ قرآن و سنت کا عالم، زمانے کے گرم و سرد سے اچھی طرح باخبر اور سید زادہ ہونے کے علاوہ دین اسلام کیلئے قربانیوں کا ایک بہت ہی نمایاں خاندانی پس منظر رکھتا تھا۔ باباجیؒ کی باتیں بڑے سکون سے سننے کے بعد عبدالجبار شاہ بڑے اطمینان سے اٹھا۔ حمد و ثنا سے اپنی تقریر کا آغار کیا۔ سیاسی و انتظامی قسم کے معاملات پر مختصر مگر بہت ہی جامع گفتگو کی اور بڑے ہی مضبوط دلائل سے بظاہر ان شبہات کو نہ صرف رفع کیا، بلکہ اپنی تقریر کے جادو سے مجمع کی ہمدردیاں بھی اپنی طرف پھیردیں۔ آخر میں کمال ذہانت سے اصل موضوع کی طرف آیا اور مجمع عام سے پوچھنے لگا:
’’دوستو! بتاؤ ہم مسلمان اپنے آخری نبیؐ سے کیا رشتہ رکھتے ہیں‘‘؟
لوگ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ پھر خود ہی جواب دیا۔
’’یہ کہ ہم مسلمان ہیں اور وہ ہمارے آخری رسولؐ’’؟‘‘
سب کہا…‘‘ ہاں ہاں یہی‘‘
’’تو مطلب یہ ہے کہ ہر مسلمان اپنے آخری نبیؐ سے ایمان کے’ایک‘‘ رشتے میں منسلک ہے۔ ہے نا اس طرح؟‘‘
’’ہاں ہاں۔۔ ایسا ہی ہے۔۔!‘‘
’’لیکن آپ جانتے ہیں کہ اس آخری نبیؐ سے میرا، ایمان کے علاوہ ایک دوسرا رشتہ بھی ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ میں سید زادہ ہوں اور اہل رسول ہوں۔ اللہ کے یہ آخری نبیؐ میرے نانا بھی ہیں۔‘‘
’’جی جی بلکل درست ہے‘‘ عوام کی طرف سے تائیدی آوازیں بلند ہونے لگیں۔
’’اچھا تو آپ سب کا اللہ کے اس آخری نبیؐ سے صرف ’’ایک ‘‘ رشتہ ہے اور وہ ایمان کا رشتہ ہے۔ لیکن میرے تو ’’دو‘‘ رشتے ہیں ایک ایمان کا اور ایک خون کا… مانتے ہونا؟‘‘
’’ہاں ہاں… بالکل درست۔۔!‘‘
’’اب سوال یہ ہے کہ اگر آپ کو اپنے اس باریک رشتے کا اتنا پاس ہے کہ آپ میں سے کوئی بھی اس آخری نبیؐ کی رسالت و نبوت میں کسی دوسرے کو شریک نہیں مانتا، تو کیا میں اتنا بے غیرت ہوں کہ میرا ایمان کا رشتہ بھی ہے اور خون کا بھی۔۔ او ر میں اپنے نانا کی نبوت میں کسی اور کو شریک مانوں۔؟ یہ ممکن کیسے؟‘‘
یہ سنتے ہی مجمع میں ہر طرف داد و تحسین کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔ مخالفین کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے، اور میدان عبدالجبار شاہ نے مار لیا۔
لیکن اس شور و غل میں بابا جیؒ دوبارہ اٹھے، لوگوں کو خاموش کیا۔ اور عبدالجبار شاہ کو مخاطب کرکے فرمایا:
’’دیکھو عبدالجبار شاہ! میرا تو خیال تھا، کہ تم اپنی غلطی کا اعتراف کرکے توبہ تائب ہوجاؤ گے اور ہم سب سابقہ باتوں کو دل سے بھلا کر اخلاص کے ساتھ دوبارہ تمہارے دست و بازو بن جائی گے۔ لیکن تم بضد ہوکہ قادیانیت کے ساتھ تمہارا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اب دلوں کا حال تو خدا ہی جانتا ہے۔ لیکن ہمارا خیال یہ ہے کہ حقیقت وہ نہیں جو تم بیان کرتے ہو۔ اب ہمارے اور تمہارے درمیان فیصلہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہی کرے گا۔ تم مسلمانوں کے اس خطے کے امیر ہو۔ تم قرآن و حدیث کے عالم بھی ہو۔ اگر تم اپنے اس دعوے میں سچے ہو تو آج جمعے کی یہ نماز آپ کو پڑھانی ہوگی۔ اگر تم اس نماز کو درست طریقے سے پڑھا سکے تو ہم مان لیں گے کہ تم اپنے دعوے میں سچے ہو۔ لیکن اگر تم اس نماز کو پڑھانے میں ناکام ہوئے، تو صاف مطلب یہ ہوگا کہ تم اپنے اصل عقیدے کو چھپا رہے ہو اور ختم نبوت پر ایمان کے دعوے میں جھوٹے ہو۔ اس صورت میں قوم کی امانت تو قوم کو واپس جائیگی ہی، آپ کو آپ کی جھوٹ کی سزا بھی ملے گی… اور ہاں…! میں یہ بھی واضح کروں کہ نماز کے قرآت میں آپ سے کوئی سہوہ ہوجاتا ہے، آپ بھول جاتے ہیں یا قرآنی آیات غلط پڑھ لیتے ہیں، تو ہم تمہارے پیچھے کھڑے ہیں۔ ہم تمہیں یاد دلائیں گے۔ یہ سہوہ غلطی میں شمار نہیں ہوگا۔ البتہ آپ کو نماز مکمل پڑھانی ہوگی‘‘۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment