سردی بڑھتے ہی لنڈا کے کپڑوں کا کاروبار چمک اٹھا

امت رپورٹ
کراچی میں سردی بڑھتے ہی لنڈا کے کپڑوں کا کاروبار چمک اٹھا ہے۔ صدر، لائٹ ہائوس، ناظم آباد، لانڈھی، کورنگی اور قائد آباد سمیت دیگر علاقوں کے بازاروں اور مارکیٹوں میں سینکڑوں ٹھیلے اور پتھارے لگ گئے۔ شہر بھر میں لگنے والے بچت بازاروں میں بھی سب سے زیادہ رش پرانے سوئٹرز، گرم پاجاموں،کوٹ، جیکٹ، کمبل اور دیگر اشیا کے اسٹالز پر نظر آرہا ہے۔ بیوپاری سردی بڑھنے کے ساتھ ساتھ قیمتیں بھی بڑھاتے جارہے ہیں۔ گزشتوں برسوں کے مقابلے میں قیمتوں میں پچیس سے تیس فیصد اضافہ کردیا گیا ہے۔ تاجروں کا کہنا ہے کہ اگر سردی کا سیزن جنوری تک جاری رہا تو وہ اچھا منافع کمالیں گے۔ لائٹ ہائوس اور صدر سمیت دیگر بازاروں اور مارکیٹوں میں پرانے کپڑوں کے خریداروں کا رش بڑھ گیا ہے۔ جبکہ بچت بازاروں میں بھی لنڈے کا مال بڑی تعداد میں فروخت ہورہا ہے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ دو برسوں میں لنڈا کے کپڑے بھی مہنگے ہوگئے ہیں۔ لیکن غریب طبقے کی پہلی اور آخری چوائس ہی لنڈا ہے۔ سردی سے بچائو کیلئے غریب و متوسط طبقے کے لوگ پرانے کپڑوں کے ٹھیلوں اور پتھاروں کا رخ کررہے ہیں۔ کراچی میں گزشتہ سال بہت کم سردی پڑی تھی جس کی وجہ سے لنڈے کے کپڑوں کا کاروبار کرنے والوں کا سیزن بھی ٹھنڈا گیا تھا۔ لیکن اس سال وہ پرامید ہیں، کیونکہ موسم سرما کا آغاز کڑاکے کی سردی سے ہوا ہے اور توقع ہے کہ وہ اچھا منافع کمالیں گے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ آج کل صبح کے وقت اور رات کو ٹھنڈی ہوائیں چلتی ہیں، جس کی وجہ سے کوٹ یا جیکٹ کے بغیر نکلنا ممکن نہیں ہے۔ غریب طبقہ گرم کپڑے کئی سال تک چلاتا ہے، لیکن سردی میں شدت ہو تو کچھ نہ کچھ خریداری کرنی ہی پڑتی ہے۔ لنڈا کے ہول سیل تاجر ڈالر مہنگا ہونے اور ڈیوٹی و ٹیکس میں اضافے کی وجہ سے گزشتہ برس کے مقابلے میں مال 20 فیصد تک مہنگا فروخت کررہے ہیں۔ جس کی وجہ سے بچت بازاروں اور گلی کوچوں، چوراہوں پر لنڈا کے کپڑے فروخت کرنے والوں نے بھی دام پچیس سے تیس فیصد بڑھا دیئے۔ لنڈا کے کپڑوں کے تاجر فرخ عباس کا ’’امت‘‘ سے گفتگو میں کہنا تھا وہ اس کاروبار سے 30 سال سے وابستہ ہیں اور شیرشاہ کی مارکیٹ سے زیادہ تر گرم کپڑے، جوتے، جرابیں، دستانے، اونی ٹوپیاں، مفلر اور کمبل لے کر آتے ہیں۔ یہ اشیا کچی آبادیوں کے لوگ زیادہ خریدتے ہیں۔ گزشتہ سال جو مال خریدا تھا، اس میں سے بچا ہوا بہت سا مال اب بھی گوداموں میں رکھا ہوا تھا۔ لیکن سال توقع ہے کہ اچھا سیزن لگ جائے گا اور دو سال کا منافع مل جائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ جیکٹ کے بورے لے کر آتے ہیں اور ایک پیس 45 سے 50 روپے کا پڑتا ہے، جو دو سو روپے تک فروخت ہو جاتا ہے۔ لنڈے کے سوئٹرز فروخت کرنے والے سہیل خان نے بتایا کہ کراچی میں پہلے سردی کا سیزن نومبر کے آغاز میں شروع ہو جاتا تھا، تاہم گزشتہ سال بھی دسمبر میں شروع ہوا تھا۔ لیکن توقع ہے کہ اس سال سردی فروری کے آغاز تک پڑیگی۔ سہیل کا کہنا تھا کہ وہ آج کل یومیہ 1500 روپے کما رہا ہے۔ قائدآباد چوک پر پتھارے والے شہزاد علی نے بتایا کہ لنڈے کا کاروبار 2008ء سے قبل عروج پر ہوتا تھا۔ لیکن جب لسانی فسادات میں لنڈے کی مارکیٹیں جلائی گئیں تو تاجروں نے دوسرے کام دھندے شروع کردیئے تھے۔ ٹھیلے والے ہاشم خان کا کہنا تھا کہ وہ 5 لاکھ روپے کا مال لایا ہے، جس میں زیادہ تر چمڑے کی جیکٹیں ہیں۔ اگر سارا مال فروخت ہوگیا تو اس کو اچھا خاصا منافع ہوگا۔ اس نے شکوہ کیا کہ اکثر پولیس والے مفت میں جیکٹ لے جاتے ہیں۔ جبکہ کے ایم سی، ڈی ایم سی، علاقہ پولیس اور ٹریفک پولیس کو یومیہ 400 روپے تک بھتہ دینا پڑتا ہے۔ لیکن ایک جیکٹ پر سو ڈیرھ سو روپے منافع مل جاتا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ جس طرح خشک میوہ جات، رضائی، کمبل والے اور سوپ والے شدید سردی پڑنے کی دعا کرتے ہیں اسی طرح لنڈے کے کاروبار سے وابستہ افراد بھی دعا کرتے ہیں کہ خوب سردی پڑے تو سیزن لگ جائے۔ ایک دکاندار طلعت نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ لنڈے کا مال اب مہنگا آرہا ہے، ہر سال قیمتیں بڑھ جاتی ہیں، کیونکہ محصولات میں اضافہ ہورہا ہے۔ دکاندار منیر کا کہنا تھا کہ لنڈے کے کپڑوں کا کاروبار اب پہلے جیسا نہیں رہا ہے۔ پہلے شہر کی مارکیٹوں، بازاروں اور بچت بازاروں کے باہر الگ سے لنڈے کے کپڑے، جوتوں، مچھردانی، کمبل، رضائی، جرابوں، دستانوں اور دیگر اشیا کی دکانیں ہوتی تھیں۔ اب اتنی نہیں رہی ہیں اور لنڈے کا کام محدود ہو چکا ہے۔ شاہ فیصل کالونی نمبر ایک ریشم گلی میں لنڈے کے کپڑوں کے تاجر جمیل احمد کا کہنا تھا کہ لنڈے کا سیزن بمشکل دو ماہ کا ہوتا ہے۔ ناظم آباد کے شہری ذوالفقار کا کہنا تھا کہ لنڈے کا صرف نام رہ گیا ہے ورنہ قیمت نئی جیکٹ والی طلب کی جا رہی ہے، جو جیکٹ دو سو کی دے رہے ہیں، وہ نئی تین سو تک میں مل سکتی ہے۔ لنڈے کے جوتے بھی مہنگے کردیئے گئے ہیں۔ اتنی قیمت کے چائنا کے آرٹیفشل لیدر کے جوتے مل جاتے ہیں۔ لائٹ ہائوس میں لنڈے کی مرکزی مارکیٹ کے تاجر رہنما حکیم شاہ نے بتایا کہ حکومتی سرپرستی نہ ہونے کی وجہ سے یہ کاروبار خراب ہورہا ہے اور اس سے وابستہ تاجر دوسرے کاروبار کررہے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ سردی میں اضافہ ہوا اور ان کا روزگار چمک اٹھا، امید ہے کہ اچھا سیزن گزرے گا اور منافع ہو گا۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment