کوئٹہ سے ڈاکٹر کے اغوا کے محرکات معلوم نہ ہوسکے

محمد زبیر خان
کوئٹہ میں ڈاکٹر ابراہیم خلیل کے اغوا کے محرکات اب تک معلوم نہیں ہوسکے ہیں۔ پولیس اور خاندانی ذرائع کے مطابق ممکنہ طور پر یہ اغوا برائے تاوان کی واردات ہوسکتی ہے۔ جبکہ کوئٹہ کے ڈاکٹروں کو خدشہ ہے کہ دہشت گرد گروپس نے ایک بار پھر کوئٹہ میں ڈاکٹروں کو ٹارگٹ کرنا شروع کردیا ہے اور یہ واردات بھی اسی سلسلے کی کڑی ہوسکتی ہے۔ پروفیسرز ایوسی ایشن کوئٹہ کے صدر ڈاکٹر غلام رسول کے مطابق ڈاکٹر ایک سافٹ ٹارگٹ ہیں اور ان کی کمیونٹی میں بے چینی پھیل چکی ہے۔
واضح رہے کہ کوئٹہ میںآٹھ روز قبل معروف نیورو سرجن ڈاکٹر ابراہیم خلیل کو اس وقت اغوا کیا گیا، جب وہ ساجد اسپتال سے اپنی رہائش گاہ شہباز ٹائون پہنچے تھے۔ پولیس اور خاندانی ذرائع کے مطابق ڈاکٹر ابراہیم خلیل کو ان کی گاڑی سے اغواکیا گیا۔ موقع پر جن تفتیش کاروں نے معائنہ کیا، ان کے مطابق ڈاکٹر ابراہیم خلیل نے ممکنہ حد تک مزاحمت کی تھی جس کے نشانات پائے گئے ہیں اور اغوا کرنے والے کم از کم پانچ لوگ تھے، جو ممکنہ طور پر دو مختلف گاڑیوں میں پہنچے تھے۔ ذرائع کے مطابق محسوس ہوتا ہے کہ ایک گاڑی نے ڈاکٹر کی گاڑی کا اسپتال سے پیچھا کیا تھا اور دوسری گاڑی پہلے ہی سے طے شدہ موقع واردات پر موجود تھی جہاں پر مذکورہ گاڑی نے ڈاکٹر کی گاڑی کو روکا اور جب گاڑی سے اتارنے کی کوشش میں ڈاکٹر ابراہیم خلیل نے مزاحمت کی جس کے بعد اغوا کاروں نے انہیں گاڑی کے شیشے توڑ کر زبردستی گاڑی میں سے باہر نکالا۔ موقع پر ایسے نشانات بھی موجود تھے جن کے حوالے سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ڈاکٹر نے مزاحمت کی تھی۔ پولیس ذرائع کے مطابق واردات کا سارا طریقہ کار کسی بھی طرح دہشت گردوں کی واردات کے طریقہ کار سے ملتا جلتا نہیں ہے، جس کی وجہ سے قیاس کیا جارہا ہے کہ یہ کسی جرائم پیشہ گروپ کی کارستانی ہوسکتی ہے اور اس کا مقصد تاوان کی وصولی ہوسکتا ہے۔ پولیس ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا ہے کہ اغوا برائے تاوان والی بات کے حوالے سے بھی پولیس کے پاس کوئی ٹھوس شواہد موجود نہیں ہیں، یہ قیاس ہی ہے اور اس قیاس کے پیچھے صرف اغوا کا طریقہ کار ہے۔ ڈاکٹر ابراہیم خلیل کے خاندانی ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ڈاکٹر ابراہیم خلیل کی کسی کے ساتھ کوئی دشمنی نہیں ہے اور نہ ہی وہ کسی طرح کی کسی سیاست وغیرہ میں ملوث ہیں۔ ان کو کبھی بھی کوئی دھمکی آمیز فون کال موصول نہیں ہوئی اور نہ ہی کبھی کوئی لڑائی جھگڑا ہوا۔ ان کے خیال میں بھی یہ اغوا برائے تاوان ہی کی واردات ہوسکتی ہے، مگر ابھی تک انہیں کوئی بھی کال وغیرہ موصول نہیں ہوئی ہے۔
کوئٹہ پروفیسرز ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر غلام رسول نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ڈاکٹر ابراہیم خلیل کے اغوا کے بعد کوئٹہ کے ڈاکٹروں میں غم وغصہ کی لہر دوڑ چکی ہے اور وہ انتہائی پریشان ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’چند ماہ قبل کوئٹہ میں ڈاکٹروں کی باقاعدہ ٹارگٹ کلنگ کی گئی تھی جس میں کئی ڈاکٹر قتل اور اغوا ہوئے تھے۔ کچھ عرصے سے یہ سلسلہ رکا ہوا تھا۔ مگر ڈاکٹر ابراہیم خلیل کے اغوا سے لگتا ہے کہ یہ سلسلہ دوبارہ شروع ہوچکا ہے اور اس وجہ سے اب ڈاکٹروں میں شدید پریشانی پائی جاتی ہے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ ’’ڈاکٹروں کو خدشہ ہے کہ اغوا کار ڈاکٹر ابراہیم خلیل کو تکالیف میں مبتلا کرسکتے ہیں اور پھر دیگر ڈاکٹروں یا ان کے خاندان والوں کا نمبر بھی آسکتا ہے، چنانچہ وہ خود کو مکمل طور پر غیر محفوظ تصور کرتے ہیں۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ جمعہ کے روز شام کے وقت ان کی انتظامیہ اور پولیس کے اعلیٰ افسران سے میٹنگ ہوئی ہے جس میں انہوں نے بتایا ہے کہ وہ بھرپور تفتیش کررہے ہیں مگر اب تک ان کو کوئی ایسے ٹھوس شواہد نہیں ملے جن کی بنیاد پر کہا جاسکے کہ ڈاکٹر ابراہیم خلیل کے ساتھ کیا ہوا ہے؟ ان کا مزید کہنا تھا کہ واقعے کے خلاف کوئٹہ میں ڈاکٹروں کا احتجاج جاری ہے۔
ایس ایس پی شعبہ تفتیش کوئٹہ، ڈاکٹر جواد نے ’’امت‘‘ کو بتایا مختلف نکات پر تفتیش جاری ہے تاہم لگتا ہے کہ یہ اغوا برائے تاوان کی واردات ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کیس کی اعلیٰ ترین سطح پر تفتیش ہورہی ہے اور تمام وسائل بروئے کار لارہے ہیں۔ امید ہے کہ جلد ہی کسی نتیجے پر پہنچ جائیں، مگر تاحال محرکات وغیرہ کے حوالے سے کوئی بھی ٹھوس شواہد نہیں ملے ہیں۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment