بیوروکریسی کے الیکٹرک کی فروخت میں رکاوٹ بن گئی

وجیہ احمد صدیقی
کے الیکٹرک کی چینی کمپنی کو فروخت میں بیوروکریسی رکاوٹ بن گئی ہے۔ وفاقی حکومت کے ذرائع کے مطابق ابراج گروپ سے کے الیکٹرک کے 66.4 فیصد شیئرز خریدنے کیلئے شنگھائی الیکٹرک پاور کو نیشنل سیکورٹی سرٹیفکیٹ نہیں جاری کیا گیا ہے۔ اگرچہ وزیر اعظم عمران خان نے اپنے پرنسپل سیکریٹری محمد اعظم خان کو یہ مسئلہ حل کرنے کی ہدایت کر رکھی ہے۔ ذرائع کے مطابق کے الیکٹرک کو سوئی سدرن گیس کے 80 ارب روپے سے زائد کے واجبات ادا کرنے ہیں اور ایف آئی اے نے سوئی سدرن کو ادائیگی کے بغیر کے الیکٹرک کو کسی دوسری کمپنی کے حوالے نہ کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ تاہم یہ مسئلہ حل کرنے کا ٹاسک وزیراعظم نے وفاقی وزیر نجکاری محمد میاں سومرو اور مشیر تجارت عبدالرزاق دائود کو دیا تھا۔ لیکن وہ 7 دسمبر کو شنگھائی پاور اور ابراج گروپ کے سربراہان کے اجلاس میں شریک نہیںہوئے۔ سرکاری ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ابراج گروپ اور شنگھائی الیکٹرک پاور اپنی خرید وفروخت کی دستاویزات حکومت کے ساتھ شیئر ہی نہیں کرنا چاہتے اور دونوں کمپنیاں اپنے معاہدے کی نقول وزارت دفاع کو بھی دینے سے انکار کر رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کو نیشنل سیکورٹی سرٹیفکیٹ جاری نہیں کیا گیا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سرکاری ادارے ابراج گروپ سے رقم نکلوانے میں ناکام ہیں۔ یاد رہے کہ ابراج گروپ کے 66.4 فیصد شیئرز کی مالیت 1.77 ارب ڈالرز ہے۔ جبکہ شنگھائی الیکٹرک نے وزیراعظم کو 400 ملین ڈالر سرمایہ کاری کی پیشکش کی ہے۔ سرکاری ذرائع کی یہ دلیل سمجھ سے بالاتر ہے کہ دو کمپنیاں اپنے معاہدات کو حکومت اور اس کے ذمہ دار اداروں سے چھپائیں اور وہ حکومت کی اجازت کے بغیر ہی خود ہی آپس میں ایسا معاہدہ کر ڈالیں جس کو حکومت کی منظوری حاصل نہ ہو۔ ’’امت‘‘ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ کے الیکٹرک کی خریداری میں چینی کمپنی نواز دور سے ہی دلچسپی لے رہی ہے اور اب چوتھی مرتبہ یہ ہوا ہے کہ اس خریداری میں اظہار دلچسپی کے خط کی مدت ختم ہوگئی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ابراج گروپ اور شنگھائی الیکٹرک پاور کے درمیان ادائیگیوں پر تنازعات ہیں، جو طے نہیں ہوپا رہے ہیں۔ ابراج گروپ یہ ادائیگیاں حکومت کے سر ڈال کر فرار ہونا چاہتا ہے۔ شنگھائی گروپ کی جانب سے عدم دلچسپی کی خبریں عام ہوئیں تو شنگھائی الیکٹرک نے کے الیکٹرک کو خریدنے سے دستبرداری کیلئے ایس ای سی پی کو خط لکھ دیا۔ ڈیل منیجر عارف حبیب کے مطابق دستبرداری کی وجہ یہ ہے کہ اس سودے کیلئے اہم منظوریاں نہ ہوسکیں۔ 24 دسمبر کو پیشکش کی مدت ختم ہوجائے گی۔ 66 فیصد شیئرز خریداری میں دلچسپی کا اعلان پھر کریں گے۔ جبکہ وفاقی حکومت کے دوسرے ذرائع کا دعویٰ ہے کہ شنگھائی الیکٹرک کی جانب سے ایک مرتبہ پھر اظہار دلچسپی کا اعلان ہوگا۔ لیکن ابراج گروپ کے پاس موجود کے الیکٹرک کے 66.4 فیصد شیئرز چینی کمپنی کو فروخت کرنے کیلئے سیکورٹی کلیئرنس وزارت دفاع سے لینا ضروری ہے۔ یہ منظوری وزارت دفاع اس وقت دے گی جب ابراج گروپ اپنے اوپر واجب الادا ایک ارب ڈالر کی ادائیگی نہیں کردیتا۔ ایک ذریعے کا دعویٰ یہ بھی ہے کہ وزارت داخلہ اور وزارت دفاع نے شنگھائی الیکٹرک پاور کو کے الیکٹرک کے 66.4 فیصد شیئرز کی فروخت کیلئے این او سی جاری کر دیا ہے۔ لیکن ابھی تک ان دونوں وزارتوں کی جانب سے کوئی اعلان سامنے نہیں آیا ہے۔ وزارت دفاع کے ذرائع کے مطابق چین کی کمپنی کو اس شرط پر کے الیکٹرک کے شیئرز کی خریداری کی اجازت دی جائے گی کہ وہ اہم دفاعی تنصیبات کو بلا تعطل بجلی فراہم کرے گی۔ دوسری جانب پرائیویٹائزیشن کمیشن نے پاور ڈویژن سے کہا ہے کہ دفاعی تنصیبات کو بلا تعطل بجلی کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے کے الیکٹرک کے شیئرز خریدنے والی کمپنی سے نئے سرے سے معاہد ہ کرنا ہوگا۔ پرائیویٹائزیشن کمیشن نے ابراج گروپ سے بھی خریدوفروخت کا معاہدہ پیش کرنے کا کہا، جو اس نے پیش نہیں کیا۔ پاور ڈویژن نے شنگھائی پاور سے کہا تھا کہ اگر وہ کے الیکٹرک کے شیئرز خریدنے میں دلچسپی رکھتی ہے تو پہلے وزارت دفاع اور وزارت داخلہ سے سیکورٹی کلیئرنس حاصل کرے۔ یاد رہے کہ شنگھائی الیکٹرک پاور پہلے ہی پاکستان میں ایک نیوکلیئر پاور پلانٹ چلا رہی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ دونوں غیر ملکی کمپنیوں کے درمیان کے الیکٹرک کے شیئرز کی فروخت کی ڈیل ایک ارب 77 کروڑ ڈالر میں طے ہوئی جو حکومت اور شیئرز فروخت کرنے والی کمپنی کے درمیان معاملات حل ہونے کے بعد طے پائی۔ طے پانے والی ڈیل میں سے ابراج گروپ کو ایک ارب 77 کروڑ ڈالر میں سے آدھا حصہ ملے گا کیونکہ سعودی عرب سے تعلق رکھنے والے پہلے خریدار گروپ الجومیہ نے بھی آف شور کمپنی کے ذریعے سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ یعنی ڈیل کے مطابق ابراج گروپ کو 78 کروڑ 50 لاکھ ڈالر ملیں گے۔ یاد رہے کہ حکومت پاکستان نے 2005ء میں کے الیکٹرک (کے ای ایس سی) کے شیئرز کا بڑا حصہ الجومیہ گروپ کو فروخت کر دیا تھا۔ رواں برس مارچ تک ابراج اور شنگھائی گروپ کے درمیان ڈیل نہ ہونے کے باعث دونوں کمپنیوں کو نئے سرے سے شیئرز کی خریدو فروخت کی منظوری لینی پڑی۔ ڈیل کی مقررہ مدت کی تاریخ ختم ہونے کے بعد شنگھائی گروپ نے رواں برس جون میں کے الیکٹرک کو خریدنے میں اپنی دلچسپی کا باقاعدہ اعلان کیاتھا۔ لیکن ڈیل کی یہ بیل منڈھے نہیں چڑھ رہی ہے۔ ذرائع کے مطابق ابراج گروپ اس معاہدے کو جلد از جلد نمٹانا چاہتا تھا۔ نواز لیگ کے دور میں اس نے یہ کوشش کی تھی کہ کسی طرح وہ کے الیکٹرک کو چھوڑ بھاگے، لیکن اصل مسئلہ ابراج گروپ سے بقایاجات کی وصولی کا ہے ، یہی وجہ ہے شیئرز کی منتقلی اب تک شروع نہیں ہوئی ہے۔کیونکہ بقایاجات کا معاملہ شیئرز فروخت کرنے والی پارٹی کو ڈیل کے طے پانے سے پہلے پہلے مکمل کرنا ہو گا، کیونکہ اس ڈیل کو بین الصوبائی رابطے کی کمیٹی دیکھ رہی ہے اور ڈیل میں طے پانے والی تمام شرائط پوری ہونے کے بعد ہی اسے منظور کیا جائے گا۔ یاد رہے کہ کے الیکٹرک نے گیس کمپنی کے بقایا جات نہیں ادا کیے تھے ۔ کے الیکٹرک گیس سے بجلی بناکر شہریوں سے فرنس آئل کے نرخ پر بل وصول کررہی ہے اس کے ساتھ اس کام میں سابق حکومتیں اور سرکاری اہلکار شامل ہیں۔ جب گیس کمپنی نے گیس کی مقدار کم کی تو کے الیکٹرک نے شہر بھر میں لوڈ شیڈنگ شروع کردی تھی اور شہریوں کوسخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment