محدثین کے حیران کن واقعات

حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ:
حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ علوم روحانی کا منبع ہیں۔ آپ دریائے معرفت اور گوہر کان حقیقت ہیں۔ آپؒ علوم ظاہری و باطنی میں بے نظیر تھے۔ فضل و ہنر میں بے عدیل تھے۔ لطف و کرم میں بے مثال تھے۔ علم و عمل میں بے مثل تھے۔ آپؒ کو خاتم المفسرین اور امام المحدثین کہا جاتا ہے۔ آپ صرف ایک صاحب دل بزرگ ہی نہ تھے، بلکہ آپ ایک بلند پایہ محدث مفسر و فقیہہ تھے۔ آپ کو مرجع علماء و مشائخ ہونے کا فخر حاصل تھا۔ آپ کو فنون عقلیہ و نقلیہ اور علوم متداولہ پر انتہائی عبور تھا۔ آپ کثرت تحفظ، علم تعبیر رئویا، وعظ، انشائ، نجوم، تحقیقات نفائس علوم، مذاکرہ و مباحثہ میں ممتاز و مشہور تھے۔ آپ عالم با عمل تھے۔ آپ صاحب تقویٰ، صاحب فہم و ذکائ، صاحب فراست، صاحب دیانت، صاحب امانت اور صاحب ولایت تھے۔ آپ کے فتوے مشہور ہیں۔
مسٹر مٹکاف کے ساتھ شرط:
ایک مرتبہ مسٹرمٹکاف ایک پادری کے ہمراہ حضرت شاہ عبد العزیزؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور وہاں یہ شرط ٹھہری کہ اگر پادری ہار گیا تو وہ دو ہزار روپے آپ کو دے گا اور اگر آپ ہار گئے تو آپ کی طرف سے دو ہزار روپے مسٹر مٹکاف پادری کو دیں گے۔
چنانچہ دونوں میں مناظرہ شروع ہوا اور پادری نے سوال کیا: ’’تمہارے پیغمبر حبیب خدا ہیں۔ تمہارے پیغمبر نے بوقت قتل امام حسینؓ، خدا سے فریاد نہ کی۔ حالانکہ حبیب کا محبوب زیادہ محبوب ہوتا ہے۔ خداوند تعالیٰ ضرور توجہ فرماتا؟‘‘
حضرت شاہ عبدالعزیزؒ نے جواباً فرمایا: ’’ہمارے پیغمبرؐ واسطے فریاد کے تشریف لے گئے تھے۔ مگر پردئہ غیب سے آواز آئی: ’’ہاں! تمہارے نواسے پر قوم نے ظلم وستم کیا اور شہید کر دیا۔ لیکن ہمیں اس وقت اپنے بیٹے عیسیٰ کا صلیب پر چڑھنے کا غم تازہ ہو گیا ہے۔‘‘ پس یہ سن کر ہمارے پیغمبرؐ خاموش ہو رہے۔‘‘
اس جواب سے پادری لاجواب ہو گیا اور دو ہزار روپے بمطابق شرط آپ کو پیش کئے۔ (دلی کے بائیس خواجہ، ص: 258)
واضح رہے کہ یہ جواب شاہ صاحب نے عیسائی عقیدے کے مطابق دیا ہے۔ عیسائی ایک طرف عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا مانتے ہیں، دوسری جانب ان کے صلیب پر چڑھنا بھی ان کے بنیادی عقیدے کا حصہ ہے۔ مناظرے میں مخالف کو لاجواب کرنے کیلئے اس کی بات کو تسلیم کرکے اسی کے نظریئے کے مطابق جواب دیا جاتا ہے اور یہ فن مناظرہ میں مشہور ہے۔
طلاق نہیں ہوئی:
ایک سوداگر نے دہلی سے روانہ ہوتے وقت اپنی بیوی سے کہا کہ ’’اگر تم اپنے باپ کے گھر جاؤ گی تو تم کو میری طرف سے طلاق ہے۔‘‘
جب سوداگر اپنے گھر واپس آیا تو اس کو معلوم ہوا کہ اس کی بیوی اپنے باپ کے گھر گئی تھی۔ اس نے علماء سے فتویٰ طلب کیا۔ سب علماء نے فتویٰ دیا کہ طلاق ہو گئی ہے۔
جب وہ شخص آپؒ کے پاس آیا تو آپ نے فتویٰ دیا کہ: ’’جب اس عورت کا باپ مرگیا، تب وہ گئی۔ اس صورت میں وہ گھر اس کے باپ کا نہ رہا، بلکہ وہ گھر عورت کا ہو گیا۔ پس وہ اپنے گھر گئی نہ کہ باپ کے۔ ‘‘ سب علماء نے آپ کی رائے سے اتفاق کیا۔ (حوالہ بالا) (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment