حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ ہندوستان آرہے تھے کہ راستے میں چند دنوں کے لیے ہرات میں ٹھہر گئے ۔ ہرات کا حاکم (محمد یادگار نام) نہایت متعصب تھا۔ اس کے ملک میں کسی کی طاقت نہ تھی کہ وہ اپنا نام ابو بکر، عمر یا عثمان رکھ سکتا۔
حضرت خواجہ خواجگان کا جہاں قیام تھا، اتفاق سے اسی جگہ حاکم ہرات بھی سیر کرتا ہوا آنکلا۔ حضرتؒ نے اسے بہت سی نصیحتیں کیں اور کہا کہ ان افعال سے توبہ کرو (کہ یہ افعال خدا، رسول خدا اور آل رسول کی ناراضگی کا باعث ہیں۔)
حاکم ہرات نے توبہ کی اور ان کے اخراجات کے لیے مال و خزانہ پیش کیا۔ آپ نے فرمایا: یہ مال نہ تیری ملک ہے نہ میری۔ جن لوگوں پر ظلم کرکے تم نے حاصل کیا ہے، ان کو واپس دے دو یا اگر واپس نہیں دے سکتے تو خیرات کردو۔ چنانچہ حاکم ہرات نے آپ کے ارشادات کی پوری تعمیل کی۔ (ہشت بہشت اقوال خواجگان چشت)
رشوت خور کی ملازمت قبول نہیں کی
لدھیانہ میں مولوی عبدالقادر ایک نہایت دین دار بزرگ گزرے ہیں۔ 1206ھ مطابق 1784ء میں پیدا ہوئے، بعمر 70 سال 1276ھ میں وفات پا گئے۔ شاہ زمان کابلی، شجاع الملک اور امیر دوست محمد خاں سب آپ کا ادب کرتے تھے۔
طالب علمی سے فارغ ہو کر ایک مرتبہ بریلی میں مقیم تھے کہ وہاں کے قاضی نے سو روپیہ ماہوار تنخواہ پر اپنے لڑکے کا استاد مقرر کرنا چاہا۔ قاضی چونکہ رشوت لینے میں مشہور تھا۔ آپ نے برملا کہہ دیا کہ آپ کے ہاں رشوت کا روپیہ آتا ہے، اگر ہم نے آپ کی نوکری اختیار کی تو حرام کی تاثیر ہمارے رگ و ریشہ میں سما جائے گی، پھر ہم باقی عمر کس طرح گزاریں گے۔
جب یہ خبر آپ کے استاد اخوند عبدالرحمن کو پہنچی تو خوش ہوئے اور کہا، واقعی علم اس کا نام ہے کہ حسن عمل بھی ساتھ ہو ورنہ حسب فرمان خداوندی، ترجمہ: ’’یہ لوگ مثل چوپاؤں کے ہیں یا ان سے بھی گمراہ تر‘‘ قرار پائیںگے۔‘‘ ( سلیم التواریخ ص 471)
٭٭٭٭٭