لیڈی بارنس کا مزید کہنا تھا کہ’’میں نے بوڑھے کے اطمینان قلب کی یہ تاویل کی کہ چونکہ پوتا موجود ہے، اس واسطے وہ اس کی زندگی اور محبت کا سہارا ہوگا، لیکن ڈاکٹر صاحب میں نے اس تاویل سے اگرچہ اپنے دماغ کو پرچالیا، مگر میرے دل کو اطمینان نہ ہوا اور میں برابر اس پڑتال میں لگی رہی کہ کسی طرح اپنے بوڑھے ملازم کی صحیح کیفیت سمجھوں۔‘‘
’’اس واقعے کے تھوڑے ہی دن بعد یتیم بچے کی ماں بھی چل بسی۔ اس سے میرے دل کو بہت تکلیف ہوئی۔ بوڑھے کی بہو کا غم میری عقل پرچھا گیا، مگر ٹھیک اسی وقت میری وہ قدیم تڑپ بھی جاگ اٹھی اور میں نے خیال کیا کہ بوڑھے کے امتحان کا اصل وقت یہی ہے۔ میرے دل پر اس کی طویل خدمت گزاریوں کا اثر تھا۔ اس کے نوجوان فرزند کی وفات کے بعد اب اس کی بہو کی موت اور اس کے پوتے کی یتیمی نے اس اثر کو اور بھی زیادہ چمکا دیا تھا، لیکن اس فطری اور رسمی ہمدردی اور دل سوزی کے علاوہ اصل چیز جو میری دلچسپیوں کا حقیقی مرکز تھی، یہ تھی کہ میں بوڑھے کی کیفیت قلب کا صحیح اندازہ کروں؟ میں دوسرے دن بوڑھے کے گائوں روانہ ہوئی، جو بالکل قریب ہی تھا۔ اس وقت تک جذبات و تخیلات کی ایک بے تاب کائنات میرے ہم رکاب تھی۔ میں ہر قدم پر یہ خیال کرتی تھی کہ اس تازہ مصیبت نے بوڑھے کے دل کی حالت کو بدل دیا ہوگا۔ وہ کبھی اپنے ضعف اور حال زار پر غور کرتا ہوگا، پھر اپنے یتیم پوتے کی کم سنی کو دیکھتا ہوگا اور غم میں ڈوب جاتا ہوگا۔ دوسرے ہی قدم پر یہ سوچنے لگتی تھی کہ جب اس کا معصوم کم سن اور لاوارث پوتا ماں باپ کے فراق میں بلبلائے گا تو وہ کس طریقے سے اس کے اور اپنے دل کو تسلی دے گا؟ وہ اس کے آنسوئوں کی جواب دہی سے کیونکر عہدہ برآ ہوگا؟ وہ ضعیفی اور اپنے پوتے کے تاریک مستقبل پر کیا پردہ ڈالے گا؟
ان تمام سوالات نے میرے دل اور دماغ کے لیے جو فیصلہ مہیا کیا، یہ تھا کہ بوڑھے کا وہ پہلا صبر و استقامت ختم ہو چکا ہوگا۔ میں اسی فیصلے کو ساتھ لے کر بوڑھے کے گھر میں داخل ہوئی اور اس کی تازہ مصیبت پر افسوس کا اظہار کیا اور اسے اپنی ہمدردی کا یقین دلایا۔ وہ نہایت ہی امن و سکون سے میری درد مندانہ باتیں سنتا رہا، لیکن جب اس کے جواب کی نوبت آئی تو اس نے پھر انگلی آسمان کی طرف اٹھا دی اور کہا ’’میم صاحبہ خدا کی تقدیر میں کوئی شخص دم نہیں مار سکتا۔ اسی نے دیا تھا اور وہی لے گیا، ہمیں ہرحال میں اس کا شکر ادا کرنا واجب ہے۔‘‘
لیڈی بارنس بوڑھے کے الفاظ نقل کرنے کے بعد پھر رکیں، گویا وہ مجھ سے ان الفاظ کی داد طلب کر رہی تھیں۔ انہوں نے تھوڑا تامل کیا، ایسا تامل جس میں ایک قسم کی محویت ملی ہوئی تھی اور سلسلہ کلام پھر شروع کیا اور مجھ سے کہا:
’’ڈاکٹر صاحب، میں جب تک بوڑھے کے پاس بیٹھی رہی۔ اس کے سینے سے آہ نکلی، نہ آنکھ سے آنسوگرے اور نہ زبان پر افسوس کا لفظ آیا۔ وہ اس طرح اطمینان سے باتیں کرتا تھا گویا اس نے اکلوتے بیٹے اور بہو کو زمین میں دفن نہیں کیا، بلکہ اپنی زندگی کا کوئی بڑا فرض ادا کیا ہے۔ تھوڑی دیر بعد میں وہاں سے واپس آگئی۔ میں بوڑھے کی پختگی ایمان پر بہت حیرت زدہ تھی۔ میں بار بار غور کرتی تھی اور تھک جاتی تھی، مگر مجھ پر یہ معما حل نہیں ہوتا تھا کہ اس پریشانی میں کسی انسان کو یہ استقامت حال کیسے نصیب ہو سکتی ہے؟(جاری ہے)
٭٭٭٭٭