محدثین کے حیران کن واقعات

پادری لاجواب ہوگیا:
حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ کے پاس ایک پادری آیا اور سوال کیا: ’’حضرت!ایک سوال مجھے بہت دنوں سے پریشان کر رہا ہے۔ اگر آپ اس کا جواب عنایت فرمائیں تو بڑی نوازش ہو گی۔ ‘‘
آپ نے فرمایا: ’’پوچھو۔ ‘‘
پادری نے سنجیدگی سے کہا: ’’ایک شخص استراحت فرما رہا ہے۔ یوں جانیے کہ سو رہا ہے۔ اس کے پاس ایک دوسرا شخص بیٹھا ہوا ہے۔ اس عرصے میں ایک بھولا بھٹکا مسافر وہاں آتا ہے۔ اسے راستے کی تلاش ہے۔ اب بتائیے کہ وہ راستے کی رہبری کس سے حاصل کرے، جو سو رہا ہے اس سے یا جو بیدار ہے اس سے؟‘‘
محدث دہلویؒ فوراً سمجھ گئے کہ پادری کیا چاہتا ہے۔ آپؒ نے اندازہ لگا لیا کہ سوئے ہوئے شخص سے پادری کی مراد رسول مقبولؐ ہیں، جو کہ مدینہ منورہ میں آرام فرما ہیں اور بیدار شخص سے مراد حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں، جو مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق چوتھے آسمان پر تشریف فرما ہیں۔
آپؒ نے ایک نظر پادری پر ڈالی اور پھر فرمایا: ’’حیرت ہے! اتنی سی بات آپ کی سمجھ میں نہ آ سکی۔ صاف ظاہر ہے کہ مسافر راہ نمائی اس سوئے ہوئے شخص سے حاصل کرے گا۔ کیونکہ پاس بیٹھا ہوا شخص خود اس بات کا منتظر ہے کہ سویا ہوا شخص جاگے تو اس سے راستہ پوچھے۔‘‘ (ماہنامہ پاکیزہ آنچل، فروری 1978ئ، ص: 37)
ایک شخص حضرت شاہ عبد العزیز کے پاس کسی مصور کی کھینچی ہوئی تصویر لایا اور کہنے لگا: ’’یہ تصویر جناب رسالت مآبؐ کی ہے۔ اسے کیا کرنا چاہئے؟‘‘
آپؒ نے فرمایا کہ: ’’حضرت پیغمبرؐ باقاعدہ غسل کیا کرتے تھے۔ تم اس تصویر کو بھی غسل دے کر دھو ڈالو۔‘‘
ایک دفعہ ایک ہندو گاڑی بان حضرت شاہ عبدالعزیزؒ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ: ’’مجھے ایک بات بتائیے کہ خدا ہندو ہے یا مسلمان؟‘‘
آپ نے فرمایا: ’’جو میں کہوں، اسے خوب سوچ لینا اور وہ یہ کہ اگر خدا ہندو ہوتا تو گئو ہتیا کبھی نہ ہوتا۔ ‘‘
ایک شخص نے حضرت شاہ عبدالعزیزؒ سے مسئلہ پوچھا کہ: ’’مولوی صاحب! یہ طوائفیں یعنی کسبی عورتیں مرتی ہیں تو ان کے جنازے کی نماز پڑھنی درست ہے یا نہیں؟‘‘
آپؒ نے فرمایا کہ: ’’جو مرد ان کے آشنا ہیں، تم ان کی نماز جنازہ پڑھتے ہو یا نہیں؟‘‘
اس نے عرض کیا کہ: ’’ہاں! پڑھتے ہیں۔‘‘
حضرت نے کہا: ’’تو پھر ان کی بھی پڑھ لیا کرو۔‘‘ (رود کوثر،ص: 591)
شاہ عبدالعزیزؒ سے کسی شخص نے شکایتاً عرض کی کہ حضور آج کل دہلی کا انتظام بہت سست ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟
فرمایا: ’’آج کل یہاں کے صاحب خدمت (ابدال دہلی) سست ہیں۔‘‘
پوچھا کہ: ’’کون صاحب ہیں؟‘‘
شاہ صاحب نے کہا کہ: ’’ایک کنجڑا بازار میں خربوزے فروخت کر رہا ہے۔ وہی آج کل صاحب خدمت ہے۔‘‘
یہ شخص اس کے امتحان کے لئے بازار گیا اور امتحان اس طرح لیا کہ خربوزے کاٹ کاٹ کر اور چکھ کر سب ناپسندکر کے ٹوکرے میں رکھ دیئے، وہ کچھ نہیں بولے۔
چند روز کے بعد دیکھا کہ انتظام بالکل درست ہے۔ اسی شخص نے پھر شاہ صاحب سے پوچھا کہ آج کل کون ہیں؟
شاہ صاحب نے فرمایا کہ: ’’ایک سقہ ہے، جو چاندنی چوک میں پانی پلاتا ہے۔ مگر ایک کٹورہ کا ایک چھدام لیتا
ہے۔‘‘ یہ شخص چھدام لے گیا اور ان سے پانی مانگا۔ انہوں نے پانی دیا۔ اس شخص نے گرا دیا کہ اس میں تنکا ہے اور دوسرا کٹورہ مانگا۔
انھوں نے پوچھا کہ: ’’اور چھدام ہے؟‘‘ اس نے کہا کہ: ’’نہیں۔ ‘‘
انہوں نے ایک دھول رسیدکیا اور کہا: ’’خربوزہ والا سمجھاکیا۔‘‘ (سچی حکایات، حصہ دوم، ص: 97)(جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment