حضرت عروہؒ کی جوانی کے بعد سے وفات تک یہی ایک دن ایسا گزرا کہ جس میں وہ قرآن مجید کی تلاوت معمول کے مطابق نہیں کرسکے تھے۔
ٹانگ کاٹنے کے بعد جب حضرت عروہؒ زخم سے صحت یاب ہوئے تو انہوں نے اپنی کٹی ہوئی ٹانگ منگوائی۔ ان لوگوں نے لا کر دے دی، تو حضرت عروہؒ اس کو اپنے ہاتھوں میں الٹتے پلٹتے جاتے اور کہتے جاتے:
ترجمہ: ’’قسم ہے اس ذات کی! جو مجھے تجھ پر لاد کر رات کی تاریکیوں میں مسجدوں کی طرف لے جاتی تھی۔ وہ ذات جانتی ہے کہ میں کبھی بھی تجھ پر چل کر کسی حرام کی طرف نہیں گیا۔‘‘
پھر انہوں نے معن بن اوسؒ کے یہ اشعار پڑھے، جس میں وہ کہتے ہیں:
-1 ’’(اے خدا میں حلفیہ کہتا ہوں) کہ میں نے اپنا ہاتھ کبھی کسی مشکوک چیز کی طرف نہیں بڑھایا۔‘‘
-2 ’’اور نہ میری ٹانگ مجھے کسی گناہ کی طرف اٹھا کر لے گئی ہے۔‘‘
-3 ’’اور نہ ہی میرے کان اور میری آنکھوں نے مجھے کسی برائی کی طرف ہنکایا۔‘‘
-4 ’’نہ ہی میری عقل اور میری ضرورت و حاجت نے کسی برائی پر میری رہنمائی کی۔‘‘
-5 ’’اور میں جانتا ہوں کہ مجھے زمانے میں کوئی مصیبت ایسی نہیں پہنچی۔‘‘
-6 ’’جو مجھ سے پہلے کسی جوان کو نہ پہنچی ہو (بلکہ مجھ سے پہلے یہ مصیبت کسی نہ کسی کو ضرور پہنچی ہوگی)۔‘‘
بڑی مصیبت میں مبتلا لوگوں کو دیکھ کر اپنی مصیبت چھوٹی معلوم ہوتی ہے۔ ولید بن عبد الملک کو اپنے معزز مہمان پر آنے والے مصائب اور تکالیف سے بہت صدمہ ہوا کہ ایک تو چند دن کے اندر اندر اس مہمان کے بیٹے کا انتقال ہوگیا، دوسرا اس کی ٹانگ ضائع ہوگئی۔
اس لئے ولید سوچنے لگا کہ کس طرح عروہؒ سے تعزیت کی جائے اور انہیں پہنچنے والی تکلیفوں پر تسلی دی جائے اور صبر کی تلقین کی جائے۔
اسی دوران ولید کے دارالخلافہ میں ’’بنی عبس‘‘ کے لوگوں کی ایک جماعت پہنچی، جس میں ایک نابینا آدمی تھا۔ (یعنی اس کی آنکھیں صحیح نہیں تھیں)۔
ولید نے اس سے پوچھا کہ تمہاری آنکھوں کو کیا ہوا؟
تو اس آدمی نے کہا: ’’اے امیر المؤمنین! میری حالت یہ تھی کہ بنی عبس میں مجھ سے زیادہ، مال دار اور عیال دار کوئی اور شخص نہیں تھا۔‘‘
ایک دن میں نے اپنے مال اور اہل وعیال کے ساتھ ایک وادی کے درمیان پڑاؤ ڈالا، اچانک ہم پر ایسا سیلاب آیا کہ ہم نے زندگی میں ایسا سیلاب کبھی نہیں دیکھا تھا اور میرا سارا مال، بیوی بچے اور سب کچھ اس سیلاب کی نذر ہوگیا۔ میرے پاس صرف ایک اونٹ اور ایک چھوٹا سا ننھا منا بچہ زندہ رہ گیا تھا۔ وہ اونٹ بہت زیادہ سرکش تھا، وہ بھی بھاگ گیا۔ میں بھی بچے کو وہیں زمین پر چھوڑ کر اونٹ کے پیچھے بھاگا، ابھی میں اس جگہ سے تھوڑا دور آگے بڑھا تھا کہ میں نے بچے کے چیخنے کی آواز سنی، میں نے مڑ کر دیکھا تو بچے کا سر بھیڑیئے کے منہ میں تھا اور وہ اس کو کھا رہا تھا، میں نے بہت جلدی کی اور لپک کر بچے کے پاس پہنچا، مگر افسوس کہ میں اس کو موت سے بچا نہ سکا۔
پھر میں دوبارہ اونٹ کی طرف گیا، جب میں اس کے قریب پہنچا تو اس نے میرے چہرے پر ایسی لات ماری کہ میری آنکھیں ضائع ہوگئیں اور اس طرح ایک رات کے اندر اندر میں بیوی، بچوں، مال و دولت اور آنکھوں سے محروم ہوگیا۔
یہ قصہ سن کر ولید نے اپنے دربان سے کہا کہ اس شخص کو ہمارے مہمان عروہ بن زبیرؒ کے پاس لے چلو، تاکہ یہ ان کو اپنا قصہ سنائے اور ان کو معلوم ہوجائے کہ لوگوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جن پر عروہؒ سے بھی زیادہ بڑی بڑی مصیبتیں اور حادثات آئے ہیں۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭