حاکم وقت کی گداگری گوارا نہیں

جالندھر میں پیر الٰہی شاہ عرف الٰہی بخشؒ قادری فاضلی ایک بہت بڑے بزرگ گزرے ہیں۔1827ء مطابق 1883ء میں بزمانہ مہاراجہ رنجیت سنگھ پیدا ہوئے، جوانی ہی میں آپ نے علوم ظاہری و باطنی میں کمال حاصل کیا۔
جب آپ کے علم و فضل اور آپ کے فقرو تصوف کی شہرت ہوئی تو شیخ کرم بخش حاکم جالندھر نے (جو سکھوں کی طرف سے مقرر تھا) چاہا کہ آپ میرے پاس آئیں تو میں کچھ روزینہ مقرر کردوں۔
چنانچہ شیخ کے کارندے شاہ صاحب کے پاس گئے اور باتوں باتوں میں شیخ کے ارادے کا مختلف پیرایہ میں اظہار کیا اور کہاکہ حاکم وقت ہیں، ان سے ملتے رہنا چاہیے، کیا تعجب ہے کہ کچھ وظیفہ مقرر کردے۔
آپ نے فرمایا۔ مجھے یہ گداگری ہر گز منظور نہیں، میں نے نفس کی پر ورش کے لیے نہیں، بلکہ نفس کو مارنے کے لیے فقیری اختیار کی ہے۔ ہم اپنے مولا کے فقیر ہیں، حاکموں کے دریوزہ گر نہیں ہیں۔ (سلیم التواریخ ص 449)۔
سلطان طغرل سلجوقی کے زمانے میں علما پر مصائب
سلجوقیوں کی حکومت کا وہ زمانہ شاید لوگوں کو یاد ہو جب امام الاشاعرہ ابو الحسن الاشعریؒ کو برسر منبر مغلظات بکی جاتی تھیں۔ سلطان طغرل سلجوقی اس وقت بلاد روم سے لے کر چین کی سرحد تک تنہا فرمانروا تھا۔ ابو نصر کندی وزیر تھا، جس کے ہاتھ میں تمام کے نظم و نسق کی باگ تھی۔ مذہباً یہ بد عقیدہ شخص تھا۔
امیہ بن عبد العزیزؒ اندلس کے ایک عالم تھے، معقول و منقول دونوں مملکتوں میں ان کی زبان و قلم کا سکہ چلتا تھا۔ 489ھ میں وہ اندلس سے اسکندریہ آئے، مصر کے حکمران نے کسی سبب سے ان کو قید کردیا، برسوں اسی قید میں گزارے، لیکن اس تنہائی میں بھی اپنی فتوحات کی توسیع میں کوشاں رہے۔ ہیئت میں عمل بالاصطر لاب اور کتاب الوجیز، طب میں کتاب الادویہ المفردہ، منطق میں تقویم الذہن، فلسفہ میں کتاب الانتصار اسی قید خانہ کی تنگ کوٹھڑی میں بیٹھ کر تصنیف کیں۔ 505ھ میں بادشاہ نے مصر سے جلا وطن کردیا تو وہ مراکش کی طرف چلے گئے، آخر 529ھ میں کہیں اسی طرف اس دنیا سے چل بسے۔ (ابن خلکان جلد نمبر 1 صفحہ 81)
علامہ ابن حزم ظاہری بھی اسی سرزمین کی خاک سے اٹھے تھے، جہاں چھ سو برس تک اسلام کی بہار غیرت ارم بنی تھی، یعنی ارض اندلس۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment