ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کا جذبۂ ایمانی

یہ 17 رمضان المبارک 2 ہجری کا دن تھا۔ اس دن مدینہ سے اسّی میل کے فاصلے پر بدر کا میدان ایک تحیر خیز منظر پیش کر رہا تھا۔ مشرکین مکہ جو بڑے سازو سامان اور طمطراق کے ساتھ اہل حق کو صفحۂ ہستی سے نیست و نابود کرنے کے لیے آئے تھے، اپنے سے ایک تہائی بے سرو سامان علم برداران توحید سے ذلت انگیز شکست کھا چکے تھے۔ ان کے بڑے بڑے سردار قتل ہو چکے تھے اور ان کی لاشیں میدان جنگ میں جگہ جگہ بکھری پڑی تھیں۔
یہ وہی لوگ تھے، جنہوں نے مکہ میں اہل حق کا جینا دوبھر کردیا تھا اور ان کو اپنے وطن سے نکلنے پر مجبور کردیا تھا۔ سردار دو عالمؐ اگر چاہتے تو ان لاشوں کو گِدھوں، چیلوں اور درندوں کی خوراک بننے کے لیے اسی طرح کھلے میدان میں چھوڑ دیتے، لیکن آپؐ کی شان رحیمی نے یہ گوارا نہ کیا اور آپؐ نے صحابہ کرامؓ کو حکم دیا کہ ان تمام لاشوں کو جمع کر کے کسی مناسب جگہ دفن کردیا جائے۔
صحابہ کرامؓ نے میدان کا چکر لگایا تو ایک جگہ ایک بڑا کنواں نظر آیا، جو مدت سے غیر مستعمل پڑا تھا۔ انہوں نے تمام لاشیں اس کنویں میں ڈال دیں اور ان کو مٹی اور پتھروں سے ڈھک دیا۔ اس وقت حضور اکرمؐ اس اجتماعی قبر کے قریب تشریف لے گئے اور بہ آواز بلند ارشاد فرمایا:
’’اے عتبہ، اے شیبہ، اے ابو جہل، اے فلاں، اے فلاں! کیا تم نے خدا کے وعدے کو ٹھیک پایا، بے شک مجھ سے جو وعدہ رب العزت نے کیا، وہ پورا ہوا۔‘‘
جس وقت زبان رسالت سے یہ الفاظ ہوئے، وہاں پر موجود حضورؐ کے تمام جان نثاروں کے چہرے عبرت پذیری کا مرقع بن گئے، لیکن ان میں سے ایک صاحب رسول نہایت غمزدہ معلوم ہوتے تھے۔ وہ ادھیڑ عمر کے ایک کشیدہ قامت آدمی تھے۔ سامنے کا ایک دانت زیادہ تھا اور ایک آنکھ میں قدرے بھینگا پن تھا، لیکن چہرے کے نقوش دلکش تھے اور پیشانی نور سعادت سے چمک رہی تھی۔
ان کو غم و اندوہ سے نڈھال دیکھ کر رحمت دو عالمؐ نے اپنے قریب بلایا اور بڑی شفقت سے فرمایا: ’’شاید تم کو اپنے باپ کے مرنے کا غم ہے؟‘‘
انہوں نے عرض کیا: ’’حضور! خدا کی قسم، میں اپنے باپ کی موت کی وجہ سے مغموم نہیں ہوں، بلکہ مجھے دکھ اور رنج اس بات کا ہے کہ میرے باپ کو قبول حق کی سعادت نصیب نہ ہوئی اور وہ کفر پر مرا، حالانکہ وہ ایک دانش مند، صاحب الرائے، معاملہ فہم اور خوش اخلاق شخص تھا اور مجھے پورا وثوق تھا کہ وہ شرف اسلام سے بہرور ہوگا، لیکن جس حالت میں وہ اپنے انجام کو پہنچا، اس کو دیکھ کر میری تمام امیدیں اور آرزوئیں خاک میں مل گئیں۔ میرے باپ کا مرتے دم تک دولت ایمان سے محروم رہنا ہی میرے قلق کا سبب ہے۔‘‘
سرور دو عالمؐ نے ان کے جذبہ ایمانی کی تعریف کی اور ان کو دعائے خیر سے نوازا۔ غیرت دینی اور جوش ایمان کا بھرپور مظاہرہ کرنے والے یہ صاحب رسول قریش مکہ کے نامور رئیس عتبہ بن ربیعہ (مقتول بدر) کے فرزند حضرت ہشیمؓ تھے، جو تاریخ میں اپنی کنیت ابو حذیفہؓ سے مشہور ہوئے۔
امام شافعیؒ کی والدہ کی جرأت:
حضرت امام شافعیؒ کی والدہ نہایت فہیم، ذکی الطبع اور اظہار حق میں نہایت بے پاک تھیں۔
ایک مرتبہ ان کو ایک مرد اور ایک عورت کے ہمراہ کسی معاملے میں قاضی کے محکمے میں گواہی دینے کے لیے جانا پڑا۔قاضی نے دونوں عورتوں کے جدا جدا بیان لینے چاہے، امام صاحبؒ کی والدہ نے الگ گواہی دینے سے انکار کیا اور کہا خدا نے دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر صرف اسی غرض سے قرار دی ہے کہ اگر ایک عورت صورت واقعہ بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلا دے اور اپنے دعویٰ کے ثبوت میں قرآن کریم کی یہ آیت پیش کی۔
ترجمہ: ’’اگر ایک عورت صورت واقعہ بھول جائے تو دوسری یاد دلا دے۔‘‘
قاضی نے مجبور ہو کر دونوں عورتوں کے بیان ایک ساتھ لے لیے۔
(سلیم التورایخ بحوالہ سیرت شافعیؒ)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment