امامت کے امتحان نے عبدالجبار شاہ کا پول کھول دیا تھا

محمد فاروق
عبدالجبار شاہ کے لئے نماز جمعہ پڑھانا سرے سے کوئی مسئلہ تھا ہی نہیں۔ اس نے بخوشی یہ آسان چیلنج قبول کیا۔ لوگ نماز کی تیاریاں کرنے لگے۔ مخلوق خدا بڑی بے چینی سے اس ڈرامے کے ڈراپ سین کی منتظر تھی۔ وضو کا مرحلہ مختلف تبصروں، پیش گوئیوں اور متنوع اظہار آرا کے ساتھ مکمل ہوا۔ سنتیں پڑھ لی گئیں۔ منٹوں اور ساعتوں کا کام چیونٹی کی چال چلنے والی دیر و تاخیر کی نذر ہو رہا تھا۔ ہر قریب آنے والا لمحہ نزدیک آنے کی بجائے دور بھاگ رہا تھا۔ انتظار کی گھڑیاں پریشان کن حد تک طوالت اختیار کر رہی تھیں۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ آج اس فساد آشنا زمین پر ماضی، حال اور مستقبل تینوں بیک وقت موجود ہیں، اور قسم کھا کر فیصلہ کر چکے ہیں کہ گردش ایام کے اس سلسلہ روز و شب میں ایک بار پھر ایک مرد قلندر کی نمناک آنکھ کو توقیر و آبرو مندی کے اس اعزاز سے سرفراز کیا جائے گا… کہ نہ صرف تاریخ میں امر ہو، بلکہ ظاہر بین نگاہوں کے تمام اندازوں اور مادہ پرستانہ سوچ کے تمام تانے بانے بھی پیوند خاک ہوجائیں گے۔ آج پھر آگ تھی اور اولاد ابراہیم تھی۔ پھر کسی کو پھر کسی کا امتحان مقصود تھا۔ ہر حکمران وقت جب بھی سریر آرائے سلطنت ہو جاتا ہے تو پھر اس کے خواب و خیال میں بھی یہ نہیں آتا کہ اس ’’ان شاہ جی‘‘ کو ایک نہ ایک دن کوچ کرنا ہی پڑے گا۔ اقتدار کا ذائقہ چکھنے کے بعد ہر ظل سبحانی کا وطیرہ رہا ہے کہ وہ خدا کی اس اٹل تقدیر کو… کہ ہر کہانی کا کوئی نہ کوئی اور کسی نہ کسی وقت اختتام تو ہے، کسی بھی قیمت پر ٹال دے۔ چاہے اس کی قیمت ادا کرنے میں وہ جان مال و اسباب، عزت و آبرو، ننگ و ناموس، بیوی بچوں… اور دنیا و آخرت کی کسی بھی متاع بے بہا کو پھونک ڈالے۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ ہر ظل سبحانی نے اپنے بعد کے آنے والے دوسرے ظل سبحانی کو یہی سبق دیا ہے کہ یہ آرزو ہمیشہ آرزو ہی رہتی ہے۔ ہاں، اس سبق سے ’’سبق‘‘ لینے والا آج تک پیدا نہیں ہوا۔
جمعہ کے خطبے کا مرحلہ آیا۔ ایک بار پھر عبدالجبار شاہ ممبر پر رونق افروز ہوا۔ پہلے پشتو میں مختصر اور جامع خطبہ دیا۔ پھر عربی خطبہ مکمل کیا۔ اقامت خود بابا جیؒ نے پڑھی۔ نماز کی پہلی ہی رکعت تھی۔ سورۂ فاتحہ ابھی مکمل نہیں ہوئی تھی کہ اچانک عبدالجبار شاہ کو شدید ترین الٹیاں آنے لگیں…۔ جی ہاں، بہت زیادہ الٹیاں…۔ پھر الٹیوں میں غش کھا کر گرنے لگے۔ سب نے سلام پھیرا۔ ہنگامہ مچا۔ بابا جیؒ کی گرجدار آواز کانوں سے ٹکرائی۔ ’’آؤ سنبھالو اس دشمن خدا کو۔ بھاگنے نہ پائے… محراب کو صاف کرو… اور ہاں…! اپنی صفوں کو درست رکھو… نماز سب سے پہلے مکمل کی جائی گی‘‘۔
چند لوگ آگے بڑھے۔ عبدالجبار شاہ کو نیم بے ہوشی کی حالت میں پیچھے لے جایا گیا۔ محراب کو صاف کرنے کے لئے پانی اور کپڑوں کا استعمال کیا گیا۔ بابا جیؒ نہایت اطمینان سے آگے بڑھ کر امامت کرنے لگے۔ کچھ نہیں معلوم کہ پیچھے کھڑے نمازیوں کے قلب و ضمیر کی حضوری کا کیا حال ہوگا، جب وہ ایک ایسے مرد خود آگاہ و خدا مست کی امامت میں اس رب کے روبرو کھڑے تھے، جس نے ابھی ابھی اپنے اس درویش کی لاج رکھی تھی۔ وہ درویش، جس کے فقر خانقاہی نے فقط اندوہ و دلگیری نہیں، رسم شبیری بھی سیکھی تھی۔ اس کے ہاں فقط ذکر نیم شبی و مراقبے و سرود نہیں، خودی کی نگہبانی بھی تھی۔ اس کی دانش برہانی نے بند شب و روز میں جکڑے ہر لاچار کو یہ پیغام دیا تھا کہ:
ہو اگر خود نگر و خود گر و خود گیر خودی
یہ بھی ممکن ہے کہ تو موت سے بھی مر نہ سکے
نماز کا مرحلہ اختتام کو پہنچا۔ بابا جیؒ کی عدالت لگ گئی۔ عبدالجبار شاہ کو پیش کرنے کا حکم ہوا۔
مگر یہ کیا! عبدالجبار شاہ تو غائب ہے!
یہ کیسے! کھلبلی مچ گئی… شور برپا ہوا… لوگ ادھر ادھر دوڑ کر تلاش میں لگ گئے۔ مگر ہوا کیا؟۔
ہوا یوں تھا کہ جب عبدالجبار شاہ کو مسجد سے باہر لے جایا گیا تو اس کے چند نہایت قریبی اور انتہائی قابل اعتماد محافظ باہر موجود تھے۔ ان میں سے بعض نے بابا جیؒ کے مریدوں کا روپ دھارا ہوا تھا۔ مگر حقیقتاً وہ عبدالجبار شاہ کے وفادار تھے۔ وہ پہلے سے اس قسم کی کسی صورت حال کو سنبھالنے کے لئے تیار کھڑے تھے۔ انہوں نے عبدالجبار شاہ کو اپنی تحویل میں لیا اور بابا جیؒ کے مریدوں کو اطمینان دلا کر نماز مکمل کرنے کا موقع دیا۔ لیکن جیسے ہی سب لوگ نماز کے لئے کھڑے ہوگئے… یہ لوگ، جو انتہائی تیز رفتار اور تازہ دم گھوڑوں کی سہولت رکھتے تھے، پلک چھپکنے میں وہاں سے غائب ہوگئے۔ بابا جیؒ کو معلوم ہوا تو فوراً گھوڑے تیار کروا کے ان کا پیچھا کرنے کا فیصلہ کیا۔ چند جانثار مع حضرت مارتونگؒ، اس دستے کے ساتھ بابا جیؒ کی قیادت میں عبدالجبار شاہ کے پیچھے نکل کھڑے ہوئے۔ چند کوس آگے جب ایک گاؤں پہ پہنچے تو معلوم ہوا، عبدالجبار شاہ اپنی باڈی گارڈ کے ہمراہ کافی دیر پہلے وہاں سے گزر چکا ہے۔ باباجیؒ کا دستہ برابر آگے بڑھتا رہا اور ساتھ ساتھ یہ خبریں ملتی رہیں کہ عبدالجبار شاہ شانگلہ پار کی طرف آگے نکل چکا ہے۔ جب بابا جیؒ نے شانگلہ ٹاپ عبور کیا تو معلوم ہوا کہ شکار اب بشام کے علاقے میں داخل ہوا ہے اور اگر بابا جیؒ بشام پہنچ جاتے ہیں تو عبدالجبار شاہ یا تو اپنے علاقے ستھانے پہنچ گیا ہوگا… یا وہاں سے بہت قریب ہوگا۔ بابا جیؒ نے وہیں سے واپسی کا فیصلہ فرمایا۔ دراصل بابا جیؒ کا مشن پورا ہوگیا تھا۔ مشن کیا تھا؟ پہلے سے ’’آفت زدہ‘‘ اور فتنوں کی آماجگاہ سوات کو قادیانیت کے ایک اور… اور سب سے بدترین فتنے سے بچانا۔ اس مقام پر ہم ایک بار پھر ان چبھتے ہوئے سوالات کا جائزہ لیں گے، جن کو چھیڑے بغیر کسی طور آگے نہیں بڑھا جاسکتا۔ کیا سوات کو واقعی ایک ’’بدترین‘‘ فتنے سے بچایا گیا تھا؟ کیا عبدالجبار شاہ واقعی قادیانیت کے فتنے میں مبتلا تھا؟ اگر جواب نہیں میں ہے تو سوال یہ ہے، کہ وہ بابا جیؒ کی چیلنج کو پورا کرنے میں ناکام کیوں رہا؟ کیا یہ محض ’’اتفاق‘‘ تھا کہ انہیں عین حالت نماز میں الٹیاں آئیں…۔ وضو نہ رہا، بے حال ہوگیا اور نماز مکمل نہیں کر سکا…۔ اگر ہاں… تو آخر ہر ہر موقع پر… اور عین موقع پر مسلسل اور یقینی طور پر ہم یہ ’’اتفاقات‘‘ کیوں دیکھتے ہیں؟ اگر انسان اس قسم کے تجربات و مشاہدات سے ایک بار نہیں ہزار بار گزرتا ہے… بلکہ ان اتفاقات کی ایک مربوط تاریخ سے وہ صدیوں سے باخبر ہے، تو سوال یہ ہے کہ پھر یہ اتفاقات ’’اتفاقات‘‘ کیسے اور کیوں کر ہوئے؟ کیا یہاں پر ہم ایک بار پھر اور بابا جیؒ کے اس حیرت انگیز قول پر غور کرنے کے لئے اپنے آپ کو مجبور نہیں پاتے، جس میں انہوں نے پورے اعتماد سے فرمایا تھا… کہ ’’دنیا کی ہر چیز کاغذ پر لکھی گئی ہے۔ اور وہ کاغذ ہمیشہ میرے ہاتھ میں ہوتا ہے؟‘‘۔
یہاں، ان کے اس جملے میں زور کلام کی خاطر بے شک مبالغے کا رنگ موجود ہو، لیکن کیا اس کی درستگی کے ہر امکان کو سختی سے مسترد کیا جانا چاہئے؟ ہرگز اس کا مطلب نہ لیجئے گا کہ ہم یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ، نعوذ باللہ خدا کی ذات اس کائنات کے امور سے فارغ ہوگئی ہے اور اس نے اختیارات ان چند پیروں درویشوں کو منتقل کر دیئے ہیں۔ اب ہمارا کام یہی رہ گیا ہے کہ بس ان پیروں مرشدوں کے قدموں میں بیٹھ جائیں اور ’’سرکاری‘‘ سے ہر بگڑی بنوانے کی پکی امیدوں کے ساتھ زندگی کے دن رات پورے کریں۔ نہیں، ہرگز نہیں۔ لیکن کیا ان اتفاقات کی روشنی میں یہ تصور قائم کرنا بھی کفر و شرک ہے کہ اسی رب نے سب سے پہلے تو اپنے انبیا و رسل کو ان کے مقام و مرتبے کے مطابق، ان کے فرائض منصبی کی ادائیگی کی خاطر کچھ غیب کی خبروں اور علم سے نوازا ہے، جس کا قرآن خود گواہ ہے اور ساتھ ہی ان کی غیر معمولی ذمہ داریوں کے سبب انہیں کچھ غیر معمولی صلاحیتوں سے بھی بہرہ ور کیا ہے۔ پھر عین اسی طرح درجہ بدرجہ اس خدا نے اپنے نیک بندوں اور اپنے رسولؐ کے سچے فرمانبرداروں کو بھی اپنے مقام و مرتبے کے مطابق انہیں غیر معمولی صلاحیتوں سے نوازا ہے اور بوقت ضرورت ان کے لئے غیب کے دروازے بھی کھول دیتا ہے؟
’’دنیا کی ہر چیز کاغذ پر موجود ہے اور کاغذ ہمیشہ میرے ہاتھ میں ہوتا ہے‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment