احمد نجیب زادے
ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے افغانستان سے امریکی افواج نکالنے کے اعلان پر نہ صرف ڈاکٹر اشرف غنی اور اتحادیوں کی نیندیں اُڑ گئی ہیں، بلکہ اس اعلان نے بھارتی قیادت کے بھی ہوش اُڑا دیئے ہیں۔ سترہ برسوں میں افغانستان میں کی گئی کروڑوں ڈالر کی بھارتی سرمایہ کاری ڈوبنے کا خدشہ پیدا ہوگیا۔ ایرانی بندرگاہ چاہ بہار سے بھارت کا وسط ایشیائی ٹرانزٹ کوریڈور منصوبہ بھی کھٹائی میں پڑ گیا ہے۔ سینئر بھارتی سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ ایک جانب مسٹر ٹرمپ بھارت کو افغانستان اور خطے میں اسٹرٹیجک پارٹنر قرار دیتے ہیں، تو دوسری جانب افغانستان سے فوجیں نکالنے کے اہم ترین فیصلہ پر اعتماد میں بھی نہیں لیتے۔ روسی جریدے کومر سینٹ نے انکشاف کیا ہے کہ ٹرمپ کے اعلان نے نئی دہلی میں تشویش کی ایسی لہر دوڑائی ہے کہ بھارتی وزارت خارجہ کے سینئر حکام بشمول وزیر خارجہ سشما سوراج نے روسی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان ضمیر کابلوف کو خصوصی طور پر وزارت خارجہ نئی دہلی میں بلا کر ون ٹو ون ملاقات کی ہے۔ انہوں نے بھارتی تشویش سے روسی سفارت کار کو آگاہ کیا ہے اور ان سے درخواست کی ہے کہ امریکا کی جانب سے فوج نکالنے کے منظر نامے میں افغانستان میں بھارت کے مفادات کو ضرب سے بچایا جائے۔ کیونکہ حالیہ ایام میں افغانستان میں پاکستان کی پوزیشن پہلے سے زیادہ مضبوط اور بھارتی پوزیشن یکسر کمزور ہوئی ہے۔ اماراتی جریدے دی نیشنل نے بتایا ہے کہ افغان امن مذاکرات کے حوالے سے سعودی، امریکی اور اماراتی سفیروں نے خوشی کا اظہار کیا ہے۔ جرمن ریڈیو ڈوئچے ویلے نے افغانستان سے امریکی فوجیں نکالنے کے اعلان کو طالبان کی فتح قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے افغانستان کو پاکستان کے حوالے کر دیا ہے۔ سائوتھ ایشین فورم برسلز نامی تھنک ٹینک کے ایکسپرٹ سائی فرائیڈ وولف نے کہا ہے کہ شام سے امریکی افواج کو ٹرمپ نے یہ کہہ کر نکالا ہے کہ وہاں داعش کو امریکیوں نے شکست دے دی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا افغانستان میں بھی طالبان کو امریکیوں نے شکست دے دی؟ فرائیڈ وولف کا کہنا ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ نے افغانستان کو پاکستان کے ہاتھوں میں دے دیا ہے۔ لیکن بعض امریکی تجزیہ نگاروں کے مطابق ٹرمپ کا افغانستان سے انخلا کا فیصلہ بہت زیادہ ’’کیلکولیٹڈ‘‘ ہے۔ کیونکہ اپنے بر سر اقتدار آنے کے بعد ہی انہوں نے افغانستان سے افواج نکالنے کا فیصلہ کیا تھا، لیکن چہار اطراف سے مخالفتوں کے بعد انہوں نے افغان حکومت کو ایک سال کا ٹائم دیا تھا کہ وہ اس منظر نامے کو بہتر بنائیں اور طالبان کو شکست دیں۔ اس مقصد کیلئے ٹرمپ نے نہ صرف افغانستان میں امریکی و اتحادی افواج میں مزید اضافہ کیا، بلکہ ان کو فری ہینڈ بھی دیا۔ لیکن ایک سال کی مدت میں افغان افواج اور کابل حکومت کی نا اہلیوں اور امریکی افواج کی ناکامی کو مد نظر رکھتے ہوئے انخلا کا فیصلہ کرلیا گیا۔ کابل میں موجود سیکورٹی تجزیہ نگار واحد مژدہ نے کہا ہے کہ قطر مذاکرات میں طالبان کا ون پوائنٹ ایجنڈا تسلیم کیا گیا۔ یعنی امریکی و غیر ملکی اتحادی افواج کا افغانستان سے انخلا۔ اب افغان طالبان کا کہنا ہے کہ انخلا کے اعلان پر عمل در آمد کے بعد ہی وہ کوئی گفتگو کریں گے۔ سابق افغان جنرل عتیق اللہ امر خیل نے امریکی انخلا کے اعلان پر کہا ہے کہ اشرف غنی حکومت، امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زادکی جانب سے پیش کئے جانے والے امن منصوبہ سے اتفاق نہیں رکھتی تھی اور مسلسل مخالفت کا رویہ اپنائے ہوئے تھی۔ اس لئے صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے انخلا کے اعلان کا دھماکا کر کے اشرف غنی حکومت کو کھلا پیغام بھیجا ہے کہ امریکی مخالفت کا نتیجہ کیا ہو سکتا ہے؟ اس پیغام کا واضح مطلب یہی ہے کہ اشرف غنی امریکی موقف سے ہم آہنگ ہو جائیں یا پھر طالبان جیسے طاقت ور جنگجوئوں کا مقابلہ اپنے بازوئوں کی طاقت سے کریں۔
٭٭٭٭٭